« »

Tuesday, 25 August 2009

جسونت سنگھ کا سچ



جسونت سنگھ بہادر انسان ہیں جنہوں نے قائداعظم ، گاندھی اور نہرو کی سیاست کے حوالے سے جو کچھ صحیح سمجھا اسے لکھ دیا ہے ۔ جسونت سنگھ سے پہلے کے ایل کے ایڈوانی نے صدر مشرف کے زمانے میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور قائداعظم کو فرقہ واریت کے کردار جیسا کہ انتہا پسند ہندو بتاتے رہتے ہیں کہ بجائے لبرل اور سیکولر اور برصغیر کا قابل احترام سیاستدان کہہ دیا تھا۔ مگر اگلے دن بھارت میں ایڈوانی کے خلاف انکی اپنی پارٹی بی جے پی میں آگ بھڑک اٹھی تھی جبکہ یہی ایڈوانی تھے جنہوں نے بابری مسجد کے انہدام میں انتہا پسند ہندوئوں کا قائدانہ کردار دا کیا تھا تو وہ انکی آنکھوں کا تارا تھے مگر جو نہی انکے منہ سے قائداعظم کے حوالے سے سچ نکلا تو وہ فورا بی جے پی میں نفرت اور مخالفت سے دوچار ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ بھارت کے ہندوئوں کے مزاج، سوچ اور ترجیحات کو سمجھنے میں کافی معاون رہا ہے۔ مگر جسونت سنگھ نے کتاب لکھ کر اپنے ضمیر کی بات جس طرح کہہ دی تو بی جے پی نے اسے تیس سالہ سیاسی رفاقت کا حیاء کیئے بغیر پارٹی سے نکال دیا ہے۔ 22 اگست کو جسونت سنگھ نے کہا ہے کہ انہوں نے ایڈوانی اور پارٹی کے وفاداروں کے لئے جھوٹ تک بول دیا تھا۔ تازہ اختلاف آر ایس ایس پر پابندی کے تذکرے کے حوالے سے سامنے آیا ہے کہ سردار پٹیل نے نہرو کے دبائو پر آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی مگر بعد میں اسکی انتہا پسندی کے ثبوت نہیں ملے تھے یہ موقف ایڈوانی کا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سردار پٹیل کا رتبہ جسونت نے کم کیا جو کہ برداشت نہیںہو سکتا۔ اس کا جواب جسونت سنگھ نے دیا ہے کہ قندھار میں بھارتی طیارے کے اغواء کے بعد 160 مسافروں کی رہائی کے بدلے تین دہشت گردوں کو اس وقت کے وزیر داخلہ ایڈوانی کے ساتھ کابل لے جانے کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا لیکن جب انہوں نے یعنی ایڈوانی نے انتخابی مہم کے دوران جھوٹ بولا کہ وہ اس سے لاعلم تھے تو میں نے یعنی جسونت سنگھ نے ان کے جھوٹ کی تائید کی تھی۔ اور میرا جھوٹ بولنا اور ایڈوانی کا دفاع کرنا پارٹی سے '' وفاداری تھی۔ یعنی جسونت سنگھ کی وفاداری، جھوٹ اور دہشت گردوں کے معاملے سے نپٹنا ۔ یہ سب کچھ بھارت کی سیاست کے سیاہ و سفید کو سمجھنے میں کافی مدد گار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممبئی کے واقعات کی آڑ میں جو کچھ بھارت کی طرف سے کچھ عرصہ سے کیا گیا ہے اس میں بھی بہت کچھ جھوٹ موجود ہو گا۔ جسونت سنگھ کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے لبرل پاکستانیوں کی راہنمائی کی ہے جو دن رات اٹھتے بیٹھتے بھارت کی عظمت اور جمہوریت کے نغمے اور ترانے گایا کرتے ہیں اور پاکستان کی تخلیق کو غلط قدم بتایا کرتے ہیں۔ اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔
ان میں ایک لندن میں مقیم الطاف حسین بھی ہیں جو ماضی میں قائداعظم کے تشکیل پاکستان جیسے عظیم کام کو غلط ثابت کرتے رہے ہیں۔ جسونت سنگھ کی کتاب کے آجانے کے بعد الطاف حسین کے لئے اور ان جیسے دوسرے لبرل اور سیکولر لوگوں کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ پاکستان کی تشکیل کے خلاف زبان کھول سکیں۔ لہٰذا جسونت سنگھ کا بہت بہت شکریہ۔ جسونت سنگھ سے جو کچھ انکی اپنی پارٹی بی جے پی نے کیا اور ایڈوانی ان کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں اسکی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ برصغیر کی جو تقسیم ہوئی تھی وہ دوسرے ادیان کے لوگوں سے ہندوئوں کی مستقل نفرت اور معاشرتی اونچ نیچ کا نتیجہ تھا۔ ہندو مذہب اور معاشرہ اونچ نیچ کے معاملات ذات پات کی تفریق اور عام انسانوں کی تذلیل اور کچھ انسانوں کا ارفع و اعلیٰ ایسی باتیں ہیں جو مستقل طورپر عدم استحکام کی علامتیں ہیں۔ ایسا معاشرہ اور ملک تو ہمیشہ ہی غیر مستحکم رہے گا دائمی طور پر بٹا ہوا اور تقسیم شدہ معاشرہ اور ملک بھی تقسیم شدہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت میں درجن بھر سے زیادہ علیحدگی کی اصلی تحریکیں موجود ہیں جن میں مائو تحریک اور نکسل تحریک تو سرفہرست ہیں۔ ہندو الگ اپنی شناخت رکھتے ہیں اور اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے مظالم کے خلاف معاشرتی سطح پرمتحرک رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہے ؟ ہرگز نہیں بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں اتنی طاقتور ہیں کہ چند ہفتے پہلے چینی تجزیہ نگاروں نے بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے کا خیال پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے میانمیر تک انڈین فیڈریشن کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانا ہو گا بھارت جنوبی سمندر میں تیل و گیس کے مالا مال جزیرے ٹن شا پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ چینی تجزیہ نگاروں نے تجویز پیش کی ہے کہ آسامی، تامل ، کشمیری اور دیگر علیحدگی پسندوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے جبکہ چینی تجزیہ نگار ژان لوئی کا کہنا ہے کہ اگر بھارت میں مظلوم قومیتوں کے ضمیر کو بیدار کیا جائے تو جنوبی ایشیاء میں ذات پات کا نظام ختم اور سماجی اصلاحات کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں نے مشورہ دیا ہے کہ بھارت کو 20 سے 30 خود مختار ریاستوں میں تقسیم کرنے کے چین کو پاکستان، نیپال، بھوٹان، کشمیری راہنما اور یوناٹیڈ لبریشن فرنٹ، آسام، تامل، ناگاز اور بنگلہ دیش کو اعتماد میں لینا چاہیے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت میں جتنی بھی فطری علیحدگی کی تحریکیں ہیں وہ باہر سے فنڈڈ نہیں ہیں بلکہ وہ بھارت کے اندر کی متحرک اور فعال تحریکیں ہیں جبکہ بھارت دوسرے ممالک کے اندرو ن معاملات میں مداخلت کرتا رہتا ہے۔ گوا پر قبضہ اور سکم کو ضم کرنا بھارت کے اسی منفی کردار کا نام ہے۔ 70 میں مشرقی پاکستان میں بھارت نے مداخلت کی اور 71 میں اسے اپنی فوجی یلغار نے بنگلہ دیش بنا کر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا مگر بنگلہ دیش کے ساتھ آج بھی بھارت کے پانی اور سرحدی امور پر تنازعات موجود ہیں۔ کیونکہ بنگلہ دیش ہندو کی بجائے مسلمان ریاست بن گیا ہے۔ تبت چین کا حصہ ہے ، مگر دلائی لامہ کی مدد کی آڑ میں ہمیشہ بھارت نے چین کے خلاف محاذ آرائی کی ہے۔ اولمپکس کھیلوں کو چین میں ناکام بنانے کے لئے بھارتی لابیاں متحرک رہی تھیں اور بھارتی سیاست دان کھل کر کہہ رہے تھے کہ بھارت کو تبت کے عوام کی بھرپور مدد کرنی چاہیے اور چین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا آخری وار کر دینا چاہیے ، جیسا کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں کیا گیا تھا۔ پاکستان میں طالبان کو فاٹا اور سوات میں بھارتی مدد اور اسلحہ میسر تھا جبکہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور ریاست کے باغیوں کی افغانستان میں قیام اور انکی بھرپور مالی و اسلحہ کی مدد ایسے ہی معاملات ہیں جو چین کے تبت کو الگ کرنے لئے بھارتی سیاستدان کہتے رہے ہیں۔ ارونا چل پردیش چین کا تبتی علاقہ ہے جس پر بھارت کا قبضہ ہے جبکہ کشمیر اور پاکستان کا اٹوٹ انگ رشتہ ہے لیکن بھارت نے پاکستان کی طرف سے چین کو 5 ہزار کلو میٹر ملے ہوئے جائز علاقے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہوا ہے اور کشمیر میں چینی مدد سے تعمیر ہونے والے پراجیکٹس کو کشمیر کے دفاعی امور میں چینی مداخلت کا نام دے رکھا ہے۔ گویا بھارت کا ہر جگہ ایسا موقف ہوتا ہے جو غیر فطری ، غیر اصولی ، اور غیر حقیقت پسندانہ کہا جائے گا۔ یاد رہے کہ قائداعظم نے پاکستان بھارت سے لڑائی جھگڑے کے لئے نہیں بلکہ کینیڈا اور امریکہ کی طرح پرامن بقائے باہمی کے لئے بنایا تھا مگر جسونت سنگھ سے جو کچھ بی جے پی کر چکی ہے وہی کچھ تاریخی طورپر مسلسل بھارت پاکستان سے کر رہا ہے اور اپنے دیگر پڑوسیوں سے بھی یہ کچھ منفی انداز میں مسلسل کر رہا ہے۔ بھارت اگر پرامن ملک ہوتا تو بھلا وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان دشمنی میں کیوں مصروف ہے؟ حالانکہ افغانستان کی تو کوئی سرحد بھارت سے ملتی ہی نہیں ہے مگر پاکستان دشمنی سے جو اسے افغانستان میں امریکی خوشنودی سے لے گئی ہے۔