ایران کے متنازعہ صدارتی انتخاب سے مذہبی طبقے کے مختلف گروپوں کے درمیان اختلافات کُھل کر سامنے آ گئے ہیں۔قدامت پسند مذہبی علما نے صدر محمود احمدی نژاد کے انتخاب کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ اصلاح پسند رہنماوں نے انتخاب کےنتائج پر تنقید کی ہے۔
ایران میں قُم کا شہر اسلامی علوم کا مرکز ہے ۔ چنانچہ جب قُم سے علماء کے ایک گروپ نے ایک بیان جاری کیا جس میں ایران کے صدارتی انتخاب کے نتائج اور موجودہ حکومت کی قانونی حِیثیت پر تنقید کی گئی تھی، تو دنیا بھر میں حیرت کا اظہار کیا گیا۔
Vatanka کہتے ہیں کہ احمدی نژاد نے جو مذہبی عالم نہیں ہیں، پالیسی اور مذہب کے معاملے میں مذہبی طبقے کے مخالفت مول لے لی ہے۔انھوں نے مختلف وجوہات کی بنا پرمذہبی طبقے میں اپنے لیے بہت سے دشمن پیدا کر لیے ہیں۔ انھوں نے بعض ممتاز مذہبی شخصیتوں کے خلاف مہم چلائی ہے اور ان پر ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران آپ نے اس کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ لیکن علما ء کے طبقے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو خالصتاً مذہبی نقطہ نظر سے احمدی نژاد کے صدر بننے اور ان کے حکومت چلانے کے خلاف ہیں۔
مسٹر احمدی نژاد پہلی بار 2005 میں عوامی حمایت سے صدر منتخب ہوئے تھے ۔ انھوں نے ملک سے بد عنوانی ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بہت سے ایرانیوں کی نظر میں بر سر اقتدار مذہبی طبقہ مراعات یافتہ اور بد عنوان ہے اور اس نے لوٹ کھسوٹ مچا رکھی ہے ۔ اس وقت اور آج کل بھی مسٹر احمدی نژاد نے سابق صدر اور ممتاز مذہبی شخصیت علی اکبر رفسنجانی کو خاص طور سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
2006 میں صدر نے حکم دیا کہ عورتوں کو کھیلوں کے مقابلے دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں آنے کی اجازت دے دی جائے ۔ اس پر ممتاز مذہبی علماء نے احمدی نژاد پر فحاشی کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔ ان کے اس فیصلے کی اتنی زیادہ مخالفت ہوئی کہ انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق بعض علماء کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ ایران کے صدر نے پوپ Benedict کوجو مسلمان دنیا کے بعض حلقوں میں متنازعہ شخصیت ہیں خط کیوں لکھا ۔
Syracuse University میں مطالعہ مشرق وسطیِ کے ڈائرکٹر Mehrzad Boroujerdi کہتے ہیں کہ مسٹر احمدی نژاد کو رہبر اعلیِ کی حمایت حاصل ہے لیکن انھوں نے کبھی بر سر اقتدار مذہبی طبقے کو ساتھ لے کر چلنے اور اس کے ساتھ رابطے استوار کرنے کی کوشش نہیں کی۔” قُم یا مشہد یا دوسرے اہم مقامات میں رہنے والے علما کے طبقے کے ساتھ مسٹر احمدی نژاد کے تعلقات شروع ہی سے اچھے نہیں تھے ۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ خامنہ ای کے ساتھ ان کی گاڑی چھنتی ہے ۔ جہاں تک قُم کی ممتاز مذہبی شخصیتوں کا تعلق ہے انھوں نے نہ صرف خود کو ان سے دور رکھا ہے بلکہ ایسی باتیں بھی کہی ہیں جن کی وجہ سے وہ ان سے برگشتہ ہو گئے ہیں “۔
بعض لوگوں کو اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ مسٹر احمدی نژاد بار بار غائب امام کا ذکر کرتے ہیں۔شیعوں کے عقیدے کے مطابق، آخری امام ایک ہزار سال قبل غائب ہو گئے تھے اور وہ دنیا کی رہنمائی اور امن و انصاف کے بول بالے کے لیے واپس آئیں گے ۔ مسٹر احمدی نژاد نے آخری امام یعنی مہدی علیہ السلام کے نزول کا بار بار ذکر کیا ہے ۔ ان کی اقوام متحدہ میں 2005 کی تقریر میں بھی امام مہدی کی آمد کا ذکر تھا۔ 2008 کی ایک تقریر میں انھوں نے کہا کہ دنیا مہدی علیہ السلام کے ہدایات کے مطابق چل رہی ہے اور ہمیں ملک کے معاملات میں ان کا ہاتھ نظر آتا ہے ۔
Mehrzad Boroujerdi کہتے ہیں کہ اس قسم کی باتوں سے بعض قدامت پسند مسلمان عالم ناخوش ہوتے ہیں۔اگر آپ آیت اللہ ہیں تو غائب امام کی آمد کا مطلب یہ ہو گاکہ پھر آپ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔آپ کے پاس کرنے کو تو کچھ نہیں بچے گا۔چنانچہ احمدی نژاد کے بار بار مہدی علیہ ا لسلام کا ذکر کرنے سے مذہبی عالم خوش نہیں ہوتے۔
صدر کے روحانی استاد ایک انتہائی قدامت پسند عالم آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی ہیں۔ انتخاب کے تنازعے میں انھوں نے مسٹر احمدی نژاد کی حمایت کی ہے ۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر ایران کوئی نئی راہ اختیار نہیں کرتا ، تو یزدی ایران کے اگلے رہبر اعلی ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment