عبدالرحمن ڈکیت 1995 ء سے 2009تک
مرزاغلام مصطفی، اے آروائی نیوز کراچی
اٹھارہ ستمبرانیس سوپچانوے کو اپنی والدہ کا قتل کرکے جرائم پیشہ زندگی کا آغاز کرنے والے عبدالرحمن ڈکیت کی عمر اس وقت صرف بیس سال تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب رحمن ڈکیت نے منظم گروہ کی صورت اختیار کی توانہیں پولیس ، ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
لیاری میں سیاسی سرگرمیاں رحمن ڈکیت کی حمایت کے بغیر جاری رکھنا انتہائی مشکل تھا۔اس کے گروہ کا نیٹ ورک کراچی کے علاوہ بلوچستان میں بھی طاقتورتسلیم کیا جاتا تھا۔ یہ گروہ ڈکیتی ،اغوائے برائے تاوان اور قتل وغارت گری جیسے جرائم میں ملوث تھا۔
سندھ میں رحمان ڈکیت پراغواء برائے تاوان،بھتہ خوری،ڈکیتی اور قتل وغارت گری کے سو سے زائد مقدمات قائم کیے گئے تاہم اس سے قبل پولیس نے اس گروہ کے خلاف جتنے بھی آپریشن کیے ان میں رحمن ڈکیت کامیابی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
رحمن ڈکیت کا باپ حاجی داد محمد عرف دادل اور چچا شیر محمد عرف شیرو انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سنیما ہالز میں ٹکٹ بلیک کرتے اور نشہ کرتے کرتے لیاری میں منشیات کے دھندے کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔اسی دوران انہیں ایک مضبوط مخالف کالاناگ کا سامنا کرنا پڑا۔کالاناگ ایک پولیس چھاپے کے دوران فرار ہوتے ہوئے گر کر ہلاک ہو گیا۔
کالاناگ کا بیٹا اللہ بخش عرف کالاناگ ٹو کے نام سے جرائم کی دنیامیں متعارف ہوا۔اس وقت حاجی لعل محمد عرف لالو اور اقبال بابو عرف بابو ڈکیت کے مخالف گروہ سرگرم تھے۔کالاناگ ٹو نے بابو ڈکیت کے گروہ میں شمولیت اختیار کی۔لیاری میں کشت و خون کا یہی دور تھاجب دادل کے بیٹے رحمٰن ڈکیت نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھا۔
حاجی لالو اور بابو ڈکیت کی دشمنی کے اس دور میں بابو نیلالو کو قتل کرنے کیلئے حنیف بجولہ نامی کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کیں گئیں۔اس وقت لالو اپنے دوست کے یتیم بیٹے رحمن کو ڈکیت بننے کی تربیت دے رہا تھا۔اسی دوران بابو ڈکیت کو قتل کرنے کیلئے جب رحمن کلاشنکوف لے کر پہنچا تو بابو نے رحمن کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے بتایا کہ رحمن کی والدہ سے اس کے تعلقات تھے اور رحمن دادل کا نہیں بلکہ اس کا بیٹا ہے۔یہ سن کر رحمن نے بابو کو مارنے کے بجائے بدچلنی کے شبہے میں اپنی ماں کو قتل کردیا۔۔
<
حاجی لالو رحمن ڈکیت کا ساتھ حاصل کرچکا تھا اسی ساتھ کی بدولت بابو ڈکیت کے چاروں بیٹے گینگ وار کی بھینٹ چڑھ گئے۔بابو ڈکیت کو انیس سو چھیانوے میں فالج کا دورہ پڑا اور وہ گرفتار ہو گیا۔ اسی دوران رحمن ڈکیت اور حاجی لالو کا بیٹا یاسر عرفات بھی گرفتار کرلیے گئے۔
رحمن ڈکیت پر قائم بیس مقدمات میں سے انیس میں حاجی لالو نے اس کی ضمانت کرا لی۔انیس سو ستانوے میں ایک مقدمے کی سماعت کے لئیعدالت لے جائے جانے کے دوران رحمن ڈکیت پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا۔
حاجی لالو اوررحمن ڈکیت کے درمیان اس وقت اختلافات پیدا ہوناشروع ہوئے جب رحمن کو لالو کے کہنے پر تاوان کے لئے اغواء کیے گئے ایک شخص کو تاوان میں حصہ ملے بغیر چھوڑنا پڑا۔اس دوران لالو کے گروپ میں اس کا ایک اور بیٹا ارشد پپو شامل ہوااوریہیں سے لیاری گینگ وار نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا۔
رحمن ڈکیت کے ایک ٹرانسپورٹر دوست فیض محمد عرف فیضو کی ارشد پپو کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد مخالفت دشمنی میں بدل گئی۔ دوہزار ایک میں رحمن ڈکیت کے والد کے دوست اور استاد حاجی لالو کی گرفتاری کے بعد لالو گینگ کا سربراہ ارشد پپو بن گیا۔ارشد پپونے اب رحمن ڈکیت کے خلاف کھلی کارروائیاں شروع کر دیں۔اس کے بعد سے اب تک لیاری گینگ وار میں بیس پولیس اہلکاروں سمیت تین سو ستر سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رحمن ڈکیت کو لیاری کے ہزاروں غریبوں اور بیواوٴں کو ماہانہ راشن اور مالی امداد کی فراہمی کے حوالے سے بھی کافی شہرت ہے۔
لیاری گینگ وارپر قابو پانے میں ناکامی پر گزشتہ آٹھ سال میں چھ ٹی پی اوز تبدیل ہو چکے ہیں۔
دوہزار چار میں انڈسٹریل کرائم یونٹ تشکیل دے کر بھتہ خوری روکنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ دوہزار پانچ میں یہ یونٹ نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند کردیا گیا۔
اس کے بعد لیاری ٹاسک فورس کو لیاری میں گینگ وار کے خاتمے کی ذمہ داری دی گئی۔
رحمن ڈکیت اس سے پہلے کوئٹہ میں گرفتار ہو کر انتہائی آسانی سے پولیس کے محاصرے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس کی گرفتاری اور موت کا سبب بننے والے مبینہ آخری پولیس مقابلے کے متعلق بھی مختلف حلقوں کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ لیاری امن کمیٹی نے بھی رحمن ڈکیت کی ہلاکت پر کراچی میں تین روزہ شٹر ڈاوٴن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment