بگٹی قبیلے کے نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کے تین برس بعد ڈیرہ بگٹی شہر کے علاوہ سوئی اور دیگر علاقوں میں جہاں بے گھر بگٹیوں کی واپسی سے زندگی معمول کی طرف آنے لگی ہے وہاں بظاہر سیکورٹی فورسز کے رویہ میں بھی ماضی کی نسبت قدرے مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔
بگٹی قبیلے کے نئے بننے والے نواب میر عالی بگٹی کے سینکڑوں مسلح حامیوں نے ڈیرہ بگٹی شہر میں ’بگٹی قلعہ‘ کا انتظام سنبھال لیا ہے اور آس پاس پہاڑیوں پر مورچے قائم کر لیے ہیں۔ بگٹی قلعہ کے ویران اور اجڑے ہوئے مہمان خانے میں پلمبر، الیکٹریشن، کارپینٹر نیز ہر قسم کے مستری کام میں مصروف ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ نواب میر عالی بگٹی جلد ہی اپنے قبیلے کی نوابی کی ایک بڑی علامت ’بگٹی قلعہ’ سنبھالنے والے ہیں۔
بگٹی قلعہ کے صحن کے سامنے اور قبرستان کے درمیان والی جگہ میں آج بھی فرنٹیئر کور کا بسیرا ہے۔ جب پولیس اور بگٹی محافظوں کے ہمراہ قبرستان پہنچے تو ایک ایف سی اہلکار نے کہا کہ نواب بگٹی کی قبر کے قریب مت جائیں کیونکہ خدشہ ہے کہ وہاں بارودی سرنگیں نہ ہوں لیکن بگٹی محافظوں نے بتایا کہ وہاں ایسا کچھ نہیں۔
نواب اکبر بگٹی کی قبر کی حالت ایک لاوارث قبر جیسی لگی۔ بارش کی وجہ سے قبر کے اوپر والی ریت بیٹھ اور بکھر چکی ہے اور قبر کے اوپر جھاڑیاں اْگ چکی ہیں۔ پہلے تو قبر پر ایف سی والے کسی کو آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن اب کچھ نرمی ہے۔ ایک کلاشنکوف بردار دبلے پتلے بگٹی نے کہا کہ ’ آپ پہلے صحافی ہیں جو تین برسوں کے بعد دوبارہ آئے ہیں۔‘
دو فروری سنہ دو ہزار چھ کو جب نواب اکبر بگٹی کے انٹرویو کے سلسلے میں بگٹی قلعہ آنے کا موقع ملا تھا تو اس وقت جدید اسلحہ سے مسلح بگٹی قبیلے کے لوگ جس طرح وائر لیس سیٹ اٹھائے ایک منظم ملیشیا دکھائی دیتی تھی اور اب بھی بالکل اْسی طرح بگٹی فورس سرگرم ہے لیکن فرق یہ ہے کہ پہلے یہ فورس نواب اکبر بگٹی اور برہمداغ کے حکم پر عمل کرتے تھے لیکن آج کل ان پر نواب میر عالی بگٹی کا حکم چلتا ہے۔
فرنٹیئر کور ( ایف سی ) اور بگٹی قلعہ کے درمیان جہاں تین برس قبل ایف سی کا ایک بہت بڑا مورچہ قائم تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے اور ٹریفک پولیس والوں کے بارش سے بچنے کے لیے جس طرح کوئی چبوترا ہوتا ہے، وہ تعمیر کر کے اس چوراہے کو پاکستان چوک کا نام دیا گیا ہے۔ بگٹی بازار کی دکانوں کے دروازوں اور دو رویہ سڑک کو تقسیم کرنے والے آہنی جنگلے کو نیلے رنگ سے رنگ دیا گیا ہے۔
دکانوں کے شٹر تو دور سے ایک نیا روپ پیش کرتے ہیں لیکن دکانوں کے سائن بورڈ یا تو اکھڑ چکے ہیں یا زنگ آلود ہوچکے ہیں۔ دکانوں کے اندر کچرے کی بدبو آتی ہے اور مکڑی کے جالے بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ بگٹی قلعہ کے سامنے تو بازار ویران ہے لیکن پاکستان چوک کے آس پاس چلتی پھرتی بے خوف سی زندگی کا ایک نیا روپ نظر آتا ہے۔
بگٹی قبیلے کے نئے بننے والے نواب میر عالی بگٹی کے سینکڑوں مسلح حامیوں نے ڈیرہ بگٹی شہر میں ’بگٹی قلعہ‘ کا انتظام سنبھال لیا ہے اور آس پاس پہاڑیوں پر مورچے قائم کر لیے ہیں۔ بگٹی قلعہ کے ویران اور اجڑے ہوئے مہمان خانے میں پلمبر، الیکٹریشن، کارپینٹر نیز ہر قسم کے مستری کام میں مصروف ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ نواب میر عالی بگٹی جلد ہی اپنے قبیلے کی نوابی کی ایک بڑی علامت ’بگٹی قلعہ’ سنبھالنے والے ہیں۔
بگٹی قلعہ کے صحن کے سامنے اور قبرستان کے درمیان والی جگہ میں آج بھی فرنٹیئر کور کا بسیرا ہے۔ جب پولیس اور بگٹی محافظوں کے ہمراہ قبرستان پہنچے تو ایک ایف سی اہلکار نے کہا کہ نواب بگٹی کی قبر کے قریب مت جائیں کیونکہ خدشہ ہے کہ وہاں بارودی سرنگیں نہ ہوں لیکن بگٹی محافظوں نے بتایا کہ وہاں ایسا کچھ نہیں۔
نواب اکبر بگٹی کی قبر کی حالت ایک لاوارث قبر جیسی لگی۔ بارش کی وجہ سے قبر کے اوپر والی ریت بیٹھ اور بکھر چکی ہے اور قبر کے اوپر جھاڑیاں اْگ چکی ہیں۔ پہلے تو قبر پر ایف سی والے کسی کو آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن اب کچھ نرمی ہے۔ ایک کلاشنکوف بردار دبلے پتلے بگٹی نے کہا کہ ’ آپ پہلے صحافی ہیں جو تین برسوں کے بعد دوبارہ آئے ہیں۔‘
دو فروری سنہ دو ہزار چھ کو جب نواب اکبر بگٹی کے انٹرویو کے سلسلے میں بگٹی قلعہ آنے کا موقع ملا تھا تو اس وقت جدید اسلحہ سے مسلح بگٹی قبیلے کے لوگ جس طرح وائر لیس سیٹ اٹھائے ایک منظم ملیشیا دکھائی دیتی تھی اور اب بھی بالکل اْسی طرح بگٹی فورس سرگرم ہے لیکن فرق یہ ہے کہ پہلے یہ فورس نواب اکبر بگٹی اور برہمداغ کے حکم پر عمل کرتے تھے لیکن آج کل ان پر نواب میر عالی بگٹی کا حکم چلتا ہے۔
فرنٹیئر کور ( ایف سی ) اور بگٹی قلعہ کے درمیان جہاں تین برس قبل ایف سی کا ایک بہت بڑا مورچہ قائم تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے اور ٹریفک پولیس والوں کے بارش سے بچنے کے لیے جس طرح کوئی چبوترا ہوتا ہے، وہ تعمیر کر کے اس چوراہے کو پاکستان چوک کا نام دیا گیا ہے۔ بگٹی بازار کی دکانوں کے دروازوں اور دو رویہ سڑک کو تقسیم کرنے والے آہنی جنگلے کو نیلے رنگ سے رنگ دیا گیا ہے۔
دکانوں کے شٹر تو دور سے ایک نیا روپ پیش کرتے ہیں لیکن دکانوں کے سائن بورڈ یا تو اکھڑ چکے ہیں یا زنگ آلود ہوچکے ہیں۔ دکانوں کے اندر کچرے کی بدبو آتی ہے اور مکڑی کے جالے بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ بگٹی قلعہ کے سامنے تو بازار ویران ہے لیکن پاکستان چوک کے آس پاس چلتی پھرتی بے خوف سی زندگی کا ایک نیا روپ نظر آتا ہے۔
ڈیرہ بگٹی شہر میں پنجاب کے ضلع لیہ سے تعلق رکھنے والے خالد حسین نامی حجام نے اپنی دکان بھی دوبارہ کھول لی ہے اور وہ اس پر بہت خوش ہیں۔ ’میں چاہتا ہوں کہ عید آنے سے پہلے کچھ پیسے جمع کرلوں کیوں کہ عید پر لیہ جاوٴں گا۔‘
ڈیرہ بگٹی شہر میں روزمرہ کی تمام اشیاء تو دستیاب ہیں لیکن مقامی لوگوں کو اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں مہنگی ہونے کی شکایت ہے۔ایک سبزی فروش نیاز علی نے بتایا کہ وہ ٹماٹر بیس روپے، بھنڈی اور پیاز تیس تیس روپے، آلو اور توری بیس بیس روپے، بینگن پندرہ روپے اور آم پچاس روپے کلو بیچ رہے ہیں۔ ان کے بقول چیزیں اتنی مہنگی نہیں ہیں۔
اس دوران اسکول کی چھٹی ہوئی تو نیلے رنگ کی قمیص اور ہلکے سیاہ رنگ کی پتلوں میں ملبوس کئی بچے بستے اٹھائے گھروں کو جاتے نظر آئے۔ بازار میں رمضان کے باوجود کئی مقامی لوگ کھاتے پیتے نظر آئے اور ایف سی اہلکار جو خود روزہ رکھے ہوئے تھے لیکن ضیاء الحق کے نافذ کردہ احترام رمضان آرڈیننس کے جرم میں کسی کے خلاف کارروائی سے گریزاں نظر آئے جس کی ایک بڑی وجہ بعض مقامی لوگوں کے مطابق یہ ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے سیکورٹی فورسز کو احتیاط برتنے اور مقامی لوگوں کو تنگ نہ کرنے کی ہدایات دے رکھی ہیں۔
لیکن ڈیرہ بگٹی کے ایک بڑے شہر سوئی کے رہائشی وڈیرہ شیر محمد سیکورٹی فورسز کے رویہ میں بڑی تبدیلی آنے کا کریڈٹ اپنے نواب میر عالی کو دیتے ہیں۔ ’دیکھیں جناب چند ماہ پہلے میرے گھر کے سامنے فراریوں (برہمداغ کے حامی) نے بجلی کے ٹاور کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑایا تو فوج اور ایف سی والوں نے ہمارے اہل خانہ کے تمام لوگوں کو سڑک پر کھڑا کردیا لیکن گزشتہ رات وہیں پر ایک اور کھمبے کو اڑایا گیا تو کسی نے ہمیں نہیں پکڑا۔
تاہم انٹیلی جنس والے بھی مجھ سے فون پر تفصیل پوچھتے رہے۔مشرف کے جانے کے بعد نئی حکومت کے قیام اور ہمارے نواب میر عالی بگٹی کے سوئی میں آنے سے یہ بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔اللہ کرے حالات مزید بہتر ہوں۔‘
ڈیرہ بگٹی اور سوئی کے شہروں میں بجلی کے کھمبوں میں قائد اعظم کی تصاویر نصب کی گئی ہیں۔ سوئی کے بازاروں میں نواب میر عالی بگٹی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے دو رنگوں اور چار ستاروں والے پرچم جگہ جگہ نظر آئے لیکن ڈیرہ بگٹی شہر میں ان کے پرچموں سے زیادہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا ہوا نظر آیا۔
اکثر عام لوگ کہتے ہیں کہ اب خدا کرے دوبارہ کوئی لڑائی نہ ہو اور وہ پرسکون زندگی گزار سکیں لیکن کچھ بگٹی قبیلے کے لوگوں کو خدشہ ہے کہ نوابی کے لیے برہمداغ اور میر عالی کے حامیوں میں ایک بار پھر جھڑپیں ہوسکتی ہیں۔
ڈیرہ بگٹی شہر کے علاوہ سوئی اور دیگر علاقوں میں جہاں بے گھر بگٹیوں کی واپسی سے زندگی معمول کی طرف آنے لگی ہے وہاں بظاہر سیکورٹی فورسز کے رویہ میں بھی ماضی کی نسبت قدرے مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ۔۔۔۔بشکریہ : بی بی سی
ڈیرہ بگٹی شہر میں روزمرہ کی تمام اشیاء تو دستیاب ہیں لیکن مقامی لوگوں کو اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں مہنگی ہونے کی شکایت ہے۔ایک سبزی فروش نیاز علی نے بتایا کہ وہ ٹماٹر بیس روپے، بھنڈی اور پیاز تیس تیس روپے، آلو اور توری بیس بیس روپے، بینگن پندرہ روپے اور آم پچاس روپے کلو بیچ رہے ہیں۔ ان کے بقول چیزیں اتنی مہنگی نہیں ہیں۔
اس دوران اسکول کی چھٹی ہوئی تو نیلے رنگ کی قمیص اور ہلکے سیاہ رنگ کی پتلوں میں ملبوس کئی بچے بستے اٹھائے گھروں کو جاتے نظر آئے۔ بازار میں رمضان کے باوجود کئی مقامی لوگ کھاتے پیتے نظر آئے اور ایف سی اہلکار جو خود روزہ رکھے ہوئے تھے لیکن ضیاء الحق کے نافذ کردہ احترام رمضان آرڈیننس کے جرم میں کسی کے خلاف کارروائی سے گریزاں نظر آئے جس کی ایک بڑی وجہ بعض مقامی لوگوں کے مطابق یہ ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے سیکورٹی فورسز کو احتیاط برتنے اور مقامی لوگوں کو تنگ نہ کرنے کی ہدایات دے رکھی ہیں۔
لیکن ڈیرہ بگٹی کے ایک بڑے شہر سوئی کے رہائشی وڈیرہ شیر محمد سیکورٹی فورسز کے رویہ میں بڑی تبدیلی آنے کا کریڈٹ اپنے نواب میر عالی کو دیتے ہیں۔ ’دیکھیں جناب چند ماہ پہلے میرے گھر کے سامنے فراریوں (برہمداغ کے حامی) نے بجلی کے ٹاور کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑایا تو فوج اور ایف سی والوں نے ہمارے اہل خانہ کے تمام لوگوں کو سڑک پر کھڑا کردیا لیکن گزشتہ رات وہیں پر ایک اور کھمبے کو اڑایا گیا تو کسی نے ہمیں نہیں پکڑا۔
تاہم انٹیلی جنس والے بھی مجھ سے فون پر تفصیل پوچھتے رہے۔مشرف کے جانے کے بعد نئی حکومت کے قیام اور ہمارے نواب میر عالی بگٹی کے سوئی میں آنے سے یہ بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔اللہ کرے حالات مزید بہتر ہوں۔‘
ڈیرہ بگٹی اور سوئی کے شہروں میں بجلی کے کھمبوں میں قائد اعظم کی تصاویر نصب کی گئی ہیں۔ سوئی کے بازاروں میں نواب میر عالی بگٹی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے دو رنگوں اور چار ستاروں والے پرچم جگہ جگہ نظر آئے لیکن ڈیرہ بگٹی شہر میں ان کے پرچموں سے زیادہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا ہوا نظر آیا۔
اکثر عام لوگ کہتے ہیں کہ اب خدا کرے دوبارہ کوئی لڑائی نہ ہو اور وہ پرسکون زندگی گزار سکیں لیکن کچھ بگٹی قبیلے کے لوگوں کو خدشہ ہے کہ نوابی کے لیے برہمداغ اور میر عالی کے حامیوں میں ایک بار پھر جھڑپیں ہوسکتی ہیں۔
ڈیرہ بگٹی شہر کے علاوہ سوئی اور دیگر علاقوں میں جہاں بے گھر بگٹیوں کی واپسی سے زندگی معمول کی طرف آنے لگی ہے وہاں بظاہر سیکورٹی فورسز کے رویہ میں بھی ماضی کی نسبت قدرے مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ۔۔۔۔بشکریہ : بی بی سی
No comments:
Post a Comment