آپریشن بلیو تلسی جس کی منصوبہ بندی میں پندرہ سال اور تیاری میں دس سال کا عرصہ لگا اس وقت شروع ہوچکا ہے۔ جولائی 2001ء میں جینز انفارمیشن گروپ نے رپورٹ فراہم کی کہ ''را'' اور ''موساد'' پاکستان میں اہم مذہبی اور فوجی شخصیات، جرنلسٹ، ججوں، وکلاء اور بیورو کریٹس کو خریدنے اور نشانہ بنانے کے لئے مل جل کر کام کررہی ہیں۔ اسرائیلی ائرفورس کے چیف نے مارچ 1995ء میں بھارت کا دورہ کیا اور اس کے وفد میں ''موساد'' کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ اس دورے کے دوران ایک میٹنگ میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام بطور خاص زیر بحث آیا۔ اگلے سال جون 1996ء میں بھارتی ایٹمی اور میزائل پروگرام کے ہیڈ ''عبدالکلام'' کی قیادت میں ایک وفد خفیہ دورے پر اسرائیل گیا۔ اگرچہ یہ دورہ خفیہ تھا لیکن اس کی اتنی تشہیر کی گئی کہ دورے سے قبل ہی سب کو اس کے بارے میں معلوم ہوگیا۔ خفیہ دورے کی تشہیر اور انتہائی اعلیٰ افسران کے وفد میں موجود ہونے کے باعث دورہ کامیاب رہا اور سب نے دورے کے مقاصد میں کامیابی کی طرف توجہ مبذول کئے رکھی چونکہ سبھی کا دھیان اس خفیہ دورے کے مقاصد پر تھا اس لئے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے منیجر 'دالوک تیواڑی'' کی جانب کسی کا دھیان ہی نہیں گیا جو وفد کا ایک اہم رکن تھا لیکن کسی بھی ٹاپ سیکرٹ میٹنگ میں موجود نہیں تھا چونکہ سبھی کی نظریں عبدالکلام کے خفیہ دورے پر لگی تھیں اس لئے الوک تیواڑی کی گمشدگی کو محسوس نہ کیا گیا۔ بھارت واپسی کے محض چند روز بعد ہی جولائی 1996ء میں تیواڑی ایک بار پھر بھارتی ائر چیف مارشل ایس کے سرین کے ہمراہ اسرائیل روانہ ہوگیا۔ درحقیقت یہ تیواڑی کا اسرائیل کا تیسرا دورہ تھا۔ اس سے قبل وہ اپریل 1996ء میں بھارت کے پہلے ڈیفنس اتاشی کے ہمراہ اسرائیل جاچکا تھا۔
بھارتی حکومت نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا تھا کہ پاکستان اگر ایٹمی قوت کا مالک بن چکا ہے تو وہ جوابی دھماکہ کرکے اپنی ایٹمی قوت کا ثبوت فراہم کرے لیکن جب بھارتی ایٹمی دھماکوں کے دو ہفتے بعد تک پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا تو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھنے لگے اور بھارت نے سوچا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت موجود تو نہیں ہے لیکن جلد ہی وہ اسے حاصل کرلے گا۔ اس لئے بھارت نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو اسرائیل کے ساتھ مل کر تباہ کرنے کی تیاری جونہی مکمل کی تو بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔
بھارتی چیف آف آرمی سٹاف کے دورہ اسرائیل سے جو مارچ 1998ء میں کیا گیا تھا بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ کوشش کے پیچھے موجود اصل حقائق تو کسی حد تک غیر واضح ہیں لیکن ان کوششوں نے پاکستان کو واضح طور پر ایٹمی طاقت ثابت کردیا۔ پاکستان کے ایٹمی تجربات پوری دنیا کے لئے ایک بجلی کا جھٹکا ثابت ہوئے۔ شروع میں تو بہت سے لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت ہے اور وہ اسے ظاہر بھی کرسکتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت کو تباہ کرنے میں سب سے دلچسپی لینے والے ممالک بھارت اور اسرائیل کے لئے یہ ایک ایسا جھٹکا تھا جس نے ان کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ایک سال بعد بھارت کا نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر برجیش میشرا ستمبر 1999ء میں احد باراک سے ملنے اسرائیل پہنچا تو ایک جانا پہچانا چہرہ بھی اس کے ساتھ تھا یعنی الوک تیواڑی۔ اگلے ایک برس کے دوران الوک تیواڑی اور ایک دوسرے سیکیورٹی ایڈوائزر نے مل جل کر اپنی تحقیقات پر مبنی ایک ڈاکومنٹ تیار کرلیا۔ جون 2000ء میں ایل کے ایڈوانی نے اسرائیل کا دورہ کیا جس میں موساد اور شابھک نے ''را'' کے ساتھ مل کر تخریبی تعاون کے معاملات طے کئے جن کے نتیجے میں اسرائیل کو اپنی کارروائیوں کے لئے بھارت کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کا مسئلہ بھی اٹھایا اور دونوں ممالک کے درمیان پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر مشترکہ حملے کے بارے میں بھی بات چیت کی۔ دورے کے دوران الوک تیواڑی کی رپورٹ بھی زیر بحث آئی۔ جولائی 2000ء میں بھاری تعداد میں اسرائیلی ایجنٹوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ ایسی رپورٹیں سامنے آئیں جن میں 2000ء کے اواخر تک اسرائیل ٹاپ ایجنٹوں کے بھارت کے کئی دوروں اور ان کے دوران دیگر معاملات کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور کشمیر جیسے مسائل پر آپس میں بات چیت کی گئی۔ ان میٹنگز کے دوران الوک تیواڑی کی تیار کردہ رپورٹ ایجنڈے کا اہم حصہ تھی جسے اسرائیل نے چند ضروری تبدیلیوں کے بعد قبول کرلیا تھا۔ سال کے آخری دورے کے دوران دونوں ممالک کے جاسوسی ادارے ایک موٹی فائل میں موجود ایک اہم منصوبے پر متفق ہوگئے جس کے باہر ''آپریشن بلیو تلسی'' لکھا ہوا تھا۔ اس فائل کے اندر کیا لکھا تھا یہ تو معلوم نہیں لیکن 2001ء کے اوائل میں ہونے والے واقعات سے فائل کے اندر موجود تحریر کا اندازہ ہوگیا۔
آپریشن میگا بلیو تلسی کی تیاریوں کا آغاز 2001ء میں شروع کردیا گیا تھا۔ 2001ء کے وسط تک ''را'' اور ''موساد'' کے باہمی تعاون پر تشویش کا اظہار کیا جانے لگا اور جولائی 2001ء میں جین انفارمیشن گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ''را'' اور ''موساد'' مل جل کر پاکستان میں حالات کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور مذہبی رہنمائ، صحافی، فوجی افسران، وکیل اور بیورو کریٹس کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ ریلوے سٹیشنوں، بس اسٹینڈ، سینمائوں، ہوٹلوں اور مختلف فرقوں کی مساجد میں بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے تاکہ فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جاسکے۔ اسی اثناء میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے ) کے مردہ ڈھانچے میں پھر سے جان پڑ گئی اور بلاج مری جو کہ ماسکو سے تعلیم یافتہ تھا اس نے خود کو بی ایل اے کا لیڈر قرار دے ڈالا۔ چند ہفتوں کے دوران ہی پورے بلوچستان میں کئی ٹریننگ کیمپ قائم ہوگئے اور ہر کیمپ میں سو افراد کی تربیت کا انتظام موجود تھا۔ افغانستان میں موجود ''را، موساد اور سی آئی اے'' کے ایجنٹ بلوچستان پہنچنا شروع ہوگئے۔ 2001ء کے وسط میں حاصل شدہ رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ موساد کی سپیشل آپریشنز ڈویژن جسے Metsada کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور جو قتل و خون اور سبوتاژ کی ماہر سمجھی جاتی ہے۔ ''را'' کے ایجنٹوں کو تربیت فراہم کررہی ہے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ''را'' اور ''موساد'' مل کر آپریشنز کررہی ہیں۔ جولائی 2001ء میں ''را'' نے افغانستان میں موجود بھارتی قونصلیٹس کے لئے اپنے بجٹ میں دس گنا اضافہ کردیا۔ 2004ء کے وسط تک حکومت کے پاس مکمل ثبوت موجود تھے کہ بی ایل اے اور چند بلوچ رہنماء حکومت کے خلاف سازش کررہے تھے اور انہیں بیرونی حمایت حاصل تھی۔ 13 اگست 2004ء کو بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام محمد یوسف نے بیان دیا کیا کہ ''را'' نے بلوچستان کے طول و عرض میں 40 دہشت گردی کی تربیت کے کیمپ قائم کررکھے ہیں۔ اس وقت جب اندرون خانہ یہ سازش ہورہی تھی تو ہر طرف دہشت گردوں کے ساتھ ''پُرامن مذاکرات'' کی بات کی جارہی تھی۔ جان محمد جمالی جیسے لوگ اس وقت میڈیا کی جانب سے مذاق کا نشانہ بنانے جارہے تھے کیونکہ جان محمد جمالی نے یہ کہنے کی جرأت کی تھی کہ غیر ملکی ایجنٹ بلوچستان میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا نے اس بات کو خاص اہمیت نہیں دی۔ بہرحال کچھ بھی ہوتا بہت دیر ہوچکی تھی۔ آپریشن بلیو تلسی کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اور حکومت پاکستان نے انہونی کو روکنے کے تمام مواقع ضائع کردیئے تھے۔ یکم جنوری 2005ء کو آپریشن بلو تلسی کا آغاز ہوا۔ مقامی ایجنٹوں نے اشارہ ملتے ہی آپریشن کا آغاز کردیا اور 2 جنوری 2005ء کو سوئی میں ایک خاتون ڈاکٹر کو اجتماعی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ جیسا کہ توقع تھی واقعہ شہ سرخیوں میں اخباروں کی زینت بنا اور ہمیشہ کی طرح ملزمان گرفتار نہ ہوسکے۔ اس کے بعد سات جنوری 2005ء کو سوئی میں گیس سپلائی لائن پر سینکڑوں چھوٹے راکٹ فائر کئے گئے اور پورے ملک کو گیس کی فراہمی ایک ہفتہ تک معطل رہی۔ 2005ء دہشت گردوں کے حوالے سے ایک مصروف سال ثابت ہوا جو پاکستانی بلوچ شہریوں میں بے چینی پھیلاتا رہا اور اس کا اختتام مشرف پر قاتلانہ حملے سے ہوا۔ دسمبر 2005ء میں پرویز مشرف راکٹ حملے میں بال بال بچا اور پھر فرنٹیئر کور کے انسپکٹر جنرل پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نیوتیج سرنا نے یہ بیان دیکر پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت کی اور اپنا خبث باطن بھی ظاہر کردیا کہ '' بھارت کی حکومت کو بلوچستان میں ہونے والے تشدد اور فوجی آپریشن پر تشویش ہے جس میں حکومت پاکستان نے گن شپ ہیلی کاپٹر اور لڑاکا جیٹ استعمال کئے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت پاکستان صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پُرامن مذاکرات کی راہ اپنائے گی تاکہ بلوچستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا ہوسکے''۔ ان دو قاتلانہ حملوں میں ناکامی کے بعد حکومت بھارت کو اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستانی فوج کا یقینی نشانہ بھارت کے بلوچستان میں موجود اثاثے و تنصیبات یعنی (دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ) ہونگے جو کہ اس اپنے مقصد کے حصول تک محفوظ رکھنا تھے۔
No comments:
Post a Comment