« »

Monday 18 January 2010

2010ء پاکستان کیلئے بھاری ثابت ہو سکتا ہے؟


سکندر خان بلوچ
یہ ہیں وہ الفاظ جو امریکی سفیر پیٹرسن نے 7 جنوری کو کراچی میں ایک خطاب کے دوران کہے۔ اسے وارننگ سمجھا جائے‘ دھمکی سمجھا جائے‘ مشورہ سمجھا جائے یا صرف پیشین گوئی لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی سالمیت سخت خطرے میں ہے۔ اگر امریکی ایسا کہتے ہیں تو یہ بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ حقائق سے چشم پوشی خطرناک نتائج کو جنم دے سکتی ہے۔
اس وقت پاکستان کئی قسم کے اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہے اور یہ سب مسئلے امریکہ ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تو دہشت گردی ہے جس نے ہماری نہ صر ف معیشت تباہ کی ہے بلکہ افراتفری‘ لاقانونیت اور غیر یقینی جیسے حالات پیدا کر کے ہمیں تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے جسے اب کنٹرول کرنا شاید ہمارے بس میں ہی نہیں رہا۔ بیرونی طور پر امریکہ‘ بھا رت اور اسرائیل پاکستان کی سالمیت کے خلاف سرگرم ہیں۔ یہ تینوں ممالک فرنٹ لائن میں ہیں لیکن ان کی پشت پر کئی اور بھی ہمارے دوست نما دشمن موجود ہیں۔ تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ امریکہ ظاہری طور پر ہمارا اتحادی ہے ڈنڈے کے زور پر ہم سے تمام مطالبات منوا رہا ہے ہم میں حکم عدولی کی جرأت بھی نہیں لیکن پھر بھی مجرم ہم ہی ہیں۔ امریکی عادت ہے کہ جب وہ کسی ملک کی سالمیت کے خلاف ہوتا ہے تو پہلے بہانے تراش کر جنگ کی فضا تیار کرتا ہے مثلاً 1950 میں شمالی کوریا کا حملہ روکنے کے بہانے’’پولیس ایکشن‘‘ کے نام پر ’’انچان لینڈنگ‘‘ کر کے کوریا میں اپنی فوج داخل کر دی۔ اس جنگ میں تقریباً بیس لاکھ بے گناہ کورین سویلین اور ڈیڑھ لاکھ چینی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ فوجی اموات اس کے علاوہ تھیں جن کی تعداد 3½ لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
پھر اگست 1964 میں ویت نام میں فوجیں داخل کر دیں۔ بہانہ یہ بنایا کہ Gulf of Tonkin میں شمالی ویت نامیوں نے امریکی جہازوں پر حملہ کیا ہے۔ اس جنگ میں بھی بے گناہ سویلین کی اموات لگ بھگ بیس لاکھ ہیں۔ فوجی اموات اس کے علاوہ ہیں جن کی تعداد 12 لاکھ تک بتائی جاتی ہے ۔ایک لاکھ کمبوڈین بھی لقمہ اجل بنے حالانکہ کمبوڈیا اس جنگ کا حصہ نہیں تھا۔ 60 ہزار امریکی بھی مرے اور ڈیڑھ لاکھ زخمی ہوئے لیکن دخل اندازی کی عادت سے امریکہ باز نہ آیا۔ پھر عراق کو ورغلا کر 1980 میں ایران پر حملہ کرا دیا اس طویل جنگ میں بھی ہزاروں کے حساب سے اموات ہوئیں۔ 1990 میں پہلے عراق سے کویت پر حملہ کرایا اور پھر کویت آزاد کرانے کے بہانے عراق پر چڑھائی کر دی۔ 60 بلین ڈالرز سعودی عرب سے جنگ کا خرچہ وصول کر لیا۔ القاعدہ کو سبق سکھانے کے بہانے 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ 2003 میں تباہ کن ہتھیار رکھنے کے الزام میں عراق پر دوبارہ چڑھائی کر دی۔ یہ تباہ کن ہتھیار تو برآمد نہ ہو سکے لیکن یہ دونوں جنگیں تاحال جاری ہیں۔ معلوم نہیں یہ جنگیں ختم ہونگی بھی یا نہیں لیکن اب تک ان دونوں ممالک میںکئی لاکھ بے گناہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔
حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا موجودہ ہدف خدانخواستہ پاکستان ہی ہے جس کے لئے فضا مکمل طور پر تیار کی جا چکی ہے۔ اب اس میں تو کسی کو شک نہیں کہ 9/11 کا واقعہ مسلمانوںکے خلاف ایک صہیونی سازش تھی جس کا مقصد پوری دنیا کو مسلمانوں کیخلاف لڑانا تھا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کو آپس میں لڑا کر دونوں طاقتوںکو اس قدر کمزور کرنا تھا تاکہ صہیونیت پوری دنیا پر حاوی ہو جائے جس کا وہ ہزاروں سالوں سے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اسکی عملی شکل اسوقت ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ معاشی طور پر بہت کمزور ہو چکا ہے۔ تمام مسلم ممالک پور ی دنیا میں دہشت گرد تصور ہوتے ہیں اور امریکہ کے حالیہ ایک فرمان کے مطابق اول تو مسلمانوں کو امریکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور اگر مجبوری ہوئی تو انکی برہنہ تلاشی لی جائیگی۔ اس سے زیادہ مسلمانوں کی اور زیادہ بے عزتی بھلا کیا ہو سکتی ہے؟ عیسائیوں اور مسلمانوں کی اس باہمی جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ بھی اسرائیل اور صہیونیت کو پہنچ رہاہے۔ اس کی صرف ایک مثال ہی کافی ہے ۔ اسرائیل کے تیار کردہ سیکورٹی آلات اس وقت تمام مغربی دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ان آلات کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے جس نے صرف ایک سال میں تقریباً تین بلین ڈالرز ان آلات پر خرچ کئے۔ اس ایک مثال سے اسرائیل کی آمدنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان کے خلاف جنگی منصوبہ تقریباً تیار ہو چکا ہے جس کے خدوخال واضح نظر آ رہے ہیں۔ بھارت ’’را‘‘ کی معرفت دہشت گردی میں مصروف ہے۔ سی آئی اے اور اسرائیلی موساد ’’بلیک واٹر‘‘ کے روپ میں ’’را‘‘ کے ساتھی ہیں۔ دہشت گردی کے روپ میں ’’القاعدہ‘‘ یہودیوں کی سب سے بڑی اختراع ہے۔ دہشت گردی کی ہر چھوٹی بڑی کارروائی اسی کے کھاتے میں ڈال کر پوری دنیا کیلئے ہَوا بنا دیا ہے حالانکہ القاعدہ کے خالق بھی وہ خود ہی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ القاعدہ کے خلاف پچھلے دس سال سے پوری دنیا لڑ رہی ہے لیکن آج تک نہ تو کوئی اس کا ہیڈ کوارٹر پکڑا گیا ہے اور نہ ہی اس کا سربراہ اسامہ بن لادن اور مزید حیران کن بات یہ ہے کہ القاعدہ کیخلاف جتنی بھی جنگ شدت اختیار کر رہی ہے اس سے یہ کمزور ہونے کی بجائے دن بہ دن مضبوط ہو رہی ہے بلکہ مزید پھیل رہی ہے اور اب تقریباً تقریباً تمام مسلمان ممالک میں بقول امریکی پالیسی کے یہ نیٹ ورک موجود ہے۔ القاعدہ پر قابو پانے کے بہانے عراق اور افغانستان تو تباہ کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان پر شدید قسم کی دہشت گردی مسلط کر دی گئی ہے ۔ یہی حالت یمن‘ شام اور افریقی مسلم ممالک کی ہے۔ اس جنگ کو War on Terror کہہ لیں یا War against Alqaida مقصد ایک ہی ہے۔ اب یہ جنگ تقریباً تقریباً عالمی جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن’’ القاعدہ‘‘کہیں قابو ہی نہیں آ رہی۔ یہ دنیا کی واحد جنگ ہے جس میں دشمن پر جتنا حملہ کیا جائے وہ اتنا مضبوط ہو رہا ہے تو اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یا تو ’’القاعدہ‘‘ کوئی ایسی سپر نیچرل تنظیم ہے جسے مافوق الفطرت طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جسے ختم کرنا انسانی بس میں ہی نہیں یا پھر یہ صہیونی میڈیا کی وہ ’’من گھڑت‘‘ تنظیم ہے جسے یہودی میڈیا کبھی ختم نہیں ہونے دے گا جب تک خدانخواستہ مسلم دنیا مکمل طور پر تباہ نہ ہو جائے۔
صہیونی میڈیا کے مطابق دہشت گردی موجودہ دور کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دہشت گردی کی ’’ماں‘‘ القاعدہ ہے اور القاعدہ اس وقت پاکستان کے سرحدی پہاڑوں میں پور ی طاقت سے قائم و دائم ہے جہاں سے یہ اپنا نیٹ ورک پوری مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان میں چلا رہی ہے۔ دہشت گردی یا انتہا پسندی کی تمام تنظیمیں القاعدہ ہی کے مختلف روپ ہیں۔ صہیونی میڈیا نے یہ راز بھی افشا کیا ہے کہ ان کی ایک مجلس شوریٰ کوئٹہ میں بھی موجود ہے۔ چونکہ القاعدہ کا ہیڈ کوارٹر پاکستان میں ہے اسی لئے تمام دنیا میں پاکستان ہی دہشت گردی کا مرکز ہے جس کا بھارت امریکہ اور برطانیہ پوری طاقت سے شور مچا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں نئی دہلی میں دولت مشترکہ کے سپیکرز کی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نے فرمایا ۔ "Extremism is the biggest threat to the tenets of democracy" اور بھارتی وزیر اعظم جب بھی دہشت گردی یا "Extremism" کا نام لیتے ہیں تو پوری دنیا کو پتہ ہے کہ انکا اشارہ کس طرف ہوتا ہے۔ اکثر اوقات تو وہ اشاروں والا تکلف بھی نہیں کرتے بلکہ بلا واسطہ پاکستان کو ’’دہشت گردی کا مرکز‘‘ کہہ کر پوری دنیا سے اس کے خلاف جنگ کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آجکل ’’را‘‘ کی ایک خفیہ رپورٹ کسی طرح انٹر نیٹ پر آ گئی ہے جس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ سی آئی اے اور ’’را‘‘ نے پاکستان کی ایٹمی طاقت تباہ کرنے کا معاہدہ 2001 میں کیا تھا۔ مزید یہ کہ موساد سی آئی اے اور ’’را‘‘ تینوں ایجنسیاں مل کر پاکستان میں دہشت گردی کرا رہی ہیں۔ بھارت کے پہاڑی علاقوں میں پیدا ہونے والی پوست (منشیات) جس کی قیمت کئی بلین ڈالرز ہے کا ایک چوتھائی حصہ پاکستان میں دہشت گردی پر خرچ ہو رہا ہے۔
خطرے کی بات یہ ہے کہ پچھلے دو ماہ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں یا پھر موساد اورسی آئی اے کے کارنامے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں موجود القاعدہ کے خلاف حملے کا جواز بنا لیا گیا ہے۔ نومبر میں میجر ندال ملک حسن نے فورٹ ہڈ ملٹری بیس ٹیکساس امریکہ پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 13 سولجرز مار دیئے اور 40 زخمی ہوئے۔ پھر کرسمس کے موقعہ پر نائیجیرین نوجوان عمر فاروق عبدالمطلب نے امریکی طیارہ تباہ کر نے کی کوشش کی۔ 30 دسمبر کو افغانستان میں خوست ائیر بیس پرسی آئی اے سنٹر کو خودکش دھماکے سے اڑانے والے ہمام خلیل نے آٹھ آدمی موقعہ پر مار دیے۔ ان میں سات سی آئی اے کے لوگ تھے ۔ امریکی نظر میں یہ سب القاعدہ کے لوگ تھے۔ ہمام خلیل ابو ملال البلادی صاحب کا تو حکیم اللہ محسود امیر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ فوٹو بھی شائع کر دیا گیا ہے۔ ان تمام حضرات کا ظاہری طورپر پاکستان سے کسی قسم کا تعلق نہیں لیکن چونکہ یہ تمام حملہ آور مسلمان تھے لہٰذا دہشت گرد میڈیا نے ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے تمام راستے پاکستان کی طرف جا رہے ہیں اس لئے ہر بُرائی کی جڑ پاکستان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سیناریو میں امریکی سفیر کی دھمکی یا پیشین گوئی بے مقصد نہیں۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے ۔ آمین!

No comments:

Post a Comment