« »

Thursday, 3 September 2009

terrorist cam in india



نائلہ جوزف دیال

بھارت جو سماجی تضادات کی وجہ سے انسانی مساوات کبھی قائم نہیں کرسکا جہاں مسیحیوں ، مسلمانوں اور شودروں کی جان و مال پر حملے معمول کی بات ہیں اسی بھارت کے جارحانہ عزائم اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کو امریکی دانشور عالمی سیاست کا بگڑا بچہ بھی کہتے ہیں۔

تاہم حال ہی میں امریکہ کے معروف جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے 317 کیمپ موجود ہیں اس اعتبار سے بھارت دہشت گردوں کی جنت ہے۔ جریدے کے مطابق دہشت گرد حملوں میں ہلاکتوں کے لحاظ سے بھارت دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ یہاں علیحدگی پسندوں کی تحریکیں جس تیزی سے زور پکڑ رہی ہیں۔ ان کے باعث بھارت 2025ء تک کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ جریدے نے قومی انسداد دہشت گردی مرکز واشنگٹن کی گزشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ بھارت میں مائو نواز باغیوں سمیت علیحدگی کی کئی تحریکیں عروج پر ہیں۔ متعدد بڑی قوتیں بھارت کے درپے ہیں۔ 2025ء تک بھارت کے کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے خدشات حقیقت بن سکتے ہیں۔

جریدے کا کہنا ہے کہ بھارت میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات میں ہمیشہ بھارت نے بیرونی مداخلت خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش پر الزام تراشی کی لیکن نتائج ہمیشہ برعکس نکلے جبکہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو بھی دہشت گرد تحریک کا روپ دیا گیا۔ انڈین مجاہدین نامی تنظیم ہے۔ مئی 2007ء میں جے پور، جولائی میں احمد آباد، ستمبر میں نئی دہلی، نومبر میں بنگلہ سمیت شمالی شہروں میں دھماکوں اور کئی ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرچکے ہے۔ مائو نواز باغیوں کے تامل علیحدگی پسند، کشمیری مجاہدین، گجراتی اور آسام کے مسلمان گروپ اور خالصہ تحریک کے جنگجو بھارت میں کئی ہزار دہشت گردی کے کیمپوں کی سرپرستی کررہے ہیں جس کے باعث بھارت کو بیرونی نہیں بلکہ اندرونی خلفشار کا خطرہ ہے۔ جریدے کے مطابق انتہاء پسند ہندو تنظیموں نے بھی اپنے تربیتی کیمپ کھول رکھے ہیں۔ شیوسینا اور بجرنگ دل کے مظالم، گجرات اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام اور امتیازی سلوک ہی بنیادی وجہ ہے جس کے باعث مسلمان بھارت سے علیحدگی کا نیا خواب دیکھنے لگے ہیں۔ جریدے نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ بھارت میں موجود 317 کیمپوں میں رقم اور اسلحہ بیرونی ذرائع، منشیات کی سمگلنگ، زیر زمین جرائم پیشہ عناصر اور بھارتی فوج میں موجود مسلمان، تامل اور دیگر نسل کے افسران مہیا کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیادہ تر تربیتی کیمپ جنوب مغربی بھارت میں کیرالا کے جنگلات بھارتی کشمیر اور پنجاب بھارت کے دل مدھیا پردیش اور گجرات میں موجود ہیں جو انتہاء پسند ہندوئوں، مسلمانوں، سکھوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر مشتمل ہیں۔

قومی انسداد دہشت گردی مرکز واشنگٹن کی مذکورہ رپورٹ ان حقائق کو ایک بار پھر آشکار کرتی ہے کو دوسروں پر دہشت گردی کے الزامات لگانے والا بھارت دراصل خود دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کررہا ہے اور اس کے خلاف کوئی بھی سنجیدہ کارروائی نہیں کرسکا، مذکورہ رپورٹ کا ایک ایک لفظ زمین پر موجود ان حقائق کی نشاندہی کرتا ہے جن سے بھارت نے ہمیشہ انحراف کیا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان اور بنگلہ دیش پر الزامات عائد کئے لیکن درحقیقت دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے اندر کے گروپ ملوث رہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کی مثال سب کے سامنے ہے شروع میں اپنی روایت کے مطابق بھارت نے پاکستان پر الزام تراشی کی لیکن بھارت کے انسداد دہشت گردی کے اپنے ادارے کے تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ ریل کو آگ لگانے والے انتہاء پسند ہندو تھے اور بھارتی فوج کا ایک کرنل بھی ان میں شامل تھا جسے بعد ازاں اس الزام میں گرفتار بھی کیا گیا۔

بھارت میں موجود دہشت گرد گروپوں کی تشویشناک سرگرمیوں ہی کے باعث ممبئی دھماکوں کے بعد پاکستان نے اسے نہ صرف مشترکہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے ساتھ شریک ہو جائے اور خطے سے اس عفریت کے خاتمہ کے لئے پاکستان سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کرے لیکن بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کی اس پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا اب بھی وہ حقائق سے نظریں چرا کر دوسروں پر الزام تراشی کررہا ہے اور پاک بھارت مذاکرات کے عمل کو بحال کرنے سے مسلسل انکار کررہا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں کوششیں تو کجا بھارت دہشت گردی کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہے۔ افغانستان میں موجود اس کے ایک درجن کے لگ بھگ قونصلیٹ کیا سفارتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ پوری دنیا کو پتہ ہے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم سے مذاکرات کے دوران برملا طور پر کہا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کا ارتکاب کررہا ہے۔ پاکستان کی اس شکایت کو مشترکہ اعلامیہ میں بھی شامل کیا گیا۔

بھارت کے پاس واشنگٹن کے قومی انسداد دہشت گردی مرکز کی مذکورہ رپورٹ کو مسترد کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے البتہ بھارت کے پاس عافیت کا ایک راستہ ضرور ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنی دیرینہ پالیسی کو تبدیل کرائے۔ دوسروں پر الزام تراشی کا سلسلہ ختم کرے اور اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا خاتمہ کے لئے سنجیدہ کوششیں کرے ورنہ یہ دہشت گردی جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا اس کے وجود کو پارہ پارہ کرسکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment