« »

Friday, 28 August 2009

طالبان کون ہیں

قوم آج سخت ترین آزمائش سے دوچار ہے اور
فوجی آپریشن کے حوصلہ افزا نتائج کے باوجود
ہماری داخلی کمزوریاں اور تضادات
ہمیں ایک بہت بڑے سماجی آپریشن پر مجبور کر سکتے ہیں
جس میں یقینی طور پر قوم فتح یاب ہو گی ۔ جولائی ۲۰۰۹ء
طالبان کون ہیں‘ کہاں سے آئے ہیں اور انہیں اسلحہ اور مالی وسائل کہاں سے فراہم ہو رہے ہیں‘ یہ موضوعات ہمارے قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں آج کل زیرِبحث ہیں۔ پاکستانی عوام یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ ہماری فوج خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے بعد سرکشوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں جو عظیم قربانیاں دے رہی ہے‘ اس کی یقینی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں اور ہمارے ملک میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا دور کب آئے گا۔ ہماری ماضی کی حکومتیں اپنی خودغرضی اور نااہلی کے تضادات کا شکار رہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ طالبان ہماری آنکھوں کا تارا تھے اور ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں افغانستان اور کشمیر کے لیے بہت قیمتی اثاثہ تصور کرتی تھی جبکہ آج وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار پائے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ بمبئی میں جب دہشت گردی کی ایک ہولناک واردات ہوئی اور بھارت نے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر لانے کی دھمکی دی تو بیت اللہ محسود نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اپنی فوجیں مغربی سرحد سے نکال کر مشرقی سرحدوں پر لے جائے اور ہم پاکستان کی مغربی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔ تب ہمارے میڈیا نے اسے ’’محب وطن‘‘ قرار دیا ہماری سیاسی قیادتوں نے بھی اس کے بیان کا خیرمقدم کیا پھر سات آٹھ مہینوں کے اندر اندر پورا منظرنامہ تبدیل کیوں ہو گیا ہے؟
آج کے اس اہم ترین سوال کا مختصر جواب یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی اس خطرناک صورت حال کے ذمے دار داخلی سے زیادہ خارجی عوامل ہیں اور اس ضمن میں فوجی آمریتیں سب سے زیادہ تباہ کن کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر پاکستان میں حکمرانی کے ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا جس نے ہماری تہذیبی‘ اخلاقی اور نظریاتی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں اور ایک ایسا حریص اور بے ضمیر گروہ پیدا کیا ہے جو ڈالروں کے عوض اپنی ہر شے اور اپنی ہر قدر فروخت کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ بدقسمتی سے طالع آزما سیاست دانوں کے علاوہ فوجی قیادت‘ سول بیورو کریسی اور عوامی رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے قائدین بھی امریکہ کی طرف سے فراہم کیے ہوئے میٹھے زہر کے جام کے جام لُنڈھا رہے ہیں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنے اصول‘ نصب العین اور اپنے آدرش قربان کر چکے ہیں اور قومی حمیت کے سودے کر رہے ہیں۔ وہ عناصر امریکی راگ پاکستانی سُروں میں الاپنے کو اپنی کامیابی کی معراج خیال کرتے ہیں اور وہی کچھ کہتے ہیں جو امریکی مفاد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قومی سوچ میں ایک شدید کشمکش برپا ہے اور ہماری داخلی پالیسیوں میں تضادات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ سنہری اصول جن پر ہم کبھی فخر کرتے اور وہ تصورات جنہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم جان کی بازی لگا دیتے‘ اب فرسودہ اور ترقی کی راہ میںسدِراہ قرار پائے ہیں۔
٭٭
ہم جس خطے میں آباد ہیں‘ اس کا محل وقوع‘ سٹریٹجک اعتبار سے بہت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ پُرخطر بھی ہے اور دوسری قوموں کی طرح ہم بھی اپنے پڑوسی تبدیل نہیں کر سکتے۔ پاکستان بنا تو اسے ابتدا ہی سے دشمنی پر آمادہ ہمسایوں کا سامنا کرنا پڑا‘ ایک طرف بھارت تھا اور دوسری طرف افغانستان کے حکمران۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کی کوتاہ نظری نے کشمیر کا تنازع کھڑا کیا اور افغانستان کے فرماں روا ظاہر شاہ نے پختونستان کا فتنہ اُٹھائے رکھا اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کشیدہ ماحول میں اعتماد اور تعاون کے رشتے قائم نہ ہو سکے۔ جب پنڈت نہرو نے تقسیم ہند کے معاہدے کی روح کے برعکس مسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر پر فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ کرنا چاہا اور مہاراجہ کے حکم پر جموں کے اندر مسلم آبادی کا قتل عام ہوا تو قبائلیوں کو ان کی حفاظت کے لیے ریاست جموں و کشمیر کی طرف کوچ کرناپڑا۔ ۱۹۴۸ئ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ ہوئی اور سیزفائر کے لیے بھارت کو سکیورٹی کونسل جانا پڑا جس نے سیزفائر کے حق میں قرارداد منظور کرتے ہوئے کشمیریوں کا حق خودارادیت پوری صراحت سے تسلیم کیا اور یہ فیصلہ بھی دیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔ بھارت نے حیلے بہانوں سے پوری ریاست پر قبضہ کر لیا اور بڑی تعداد میں پیراملٹری فورس تعینات کر دی۔ کشمیری عوام نے بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف باربار بغاوت کی جسے فوجی طاقت کے ذریعے دبایا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے بھارت ۱۵۹۱ئ میں اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا جس کے جواب میں وزیراعظم لیاقت علی خاں کو اپنا تاریخی مکّا لہرانا پڑا تھا۔
بھارت کی عاقبت نااندیش حکمت عملی نے اس خطے میں تصادم اور آویزش کے ایسے بیج بو دیے جس کی فصل دہشت گردی کی صورت میں تیار ہو چکی ہے۔ قائداعظم(رح) نے قیام پاکستان کے بعد بھارتی قیادت کو مشترکہ دفاع کی پیش کش کی تھی تاکہ دونوں ملک اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں اور عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دے سکیں۔ پنڈت نہرو نے یہ پیش کش مسترد کر دی اور خوفناک محاذ آرائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب ریاست جموںوکشمیر میں ظلم حد سے بڑھا‘ تو پاکستان میں جہادی تنظیمیں منظم ہونے لگیں اور نجی سطح پر فوجی تربیت کے مراکز میں اضافہ ہوتا گیا جو جہاد افغانستان میں قائم ہوئے تھے۔ اگر بھارتی قیادت پاکستان کے ساتھ جنگجویانہ طرزعمل اختیار نہ کرتی‘ تو دونوں ممالک اپنے بیشتر وسائل فوج کے بجائے اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خرچ کرتے‘ جہالت اور غربت کا خاتمہ ہو چکا ہوتا اور انتہا پسندی کے محرکات پروان ہی نہ چڑھتے۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک فلاحی ریاست کے بجائے ایک سکیورٹی اسٹیٹ بن گیا ہے اور عسکریت پسندی ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا ایک قابل قبول حل تلاش نہیں کیا جاتا اور عالمی برادری بھارت کو معقول طرز عمل اختیار کرنے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرتی‘ اس وقت تک پاکستان میں ان اسباب کا پوری طرح قلع قمع نہیں کیا جا سکے گا جو نان اسٹیٹ ایکٹرز کو غذا فراہم کر رہے ہیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں چالیس کے لگ بھگ دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور ان کی شورشوں میں دن بہ دن اضافہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بڑے بڑے اسباب میں ہولناک غربت‘ وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات اور ذہنی پس ماندگی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے طے کر لیتے اور انصاف کے راستے پر چل نکلتے ہیں‘ تو اس خطے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا کا مستقبل بھی سنور سکتا ہے۔ یہ حقیقت بڑی طاقتوں کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان کو جس قدر مہیب خطرات مغربی سرحدوں پر لاحق ہیں‘ ان کا گہرا تعلق مشرقی سرحدوں کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لیے ان خطرات سے بھی نبرد آزمائی کرنا ہو گی جو بھارت کے غیر متوازن اور جارحانہ رویوں سے پیدا ہو رہے ہیں۔ آج حل طلب مسائل میں تنازع کشمیر اور سندھ طاس معاہدے پر دیانت داری سے عمل درآمد سرفہرست ہیں۔
٭٭
پاکستان میں مظلوموں کی خاطر مر مٹنے کا ایک ولولہ تازہ جہاد کشمیر کے ساتھ ساتھ جہاد افغانستان سے بھی پیدا ہوا جو پورے ملک کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے۔ روسی فوجیں ۷۲/ دسمبر ۷۹ئ کی رات افغانستان میں اس وقت داخل ہوئیں جب پاکستان کے وزیر خارجہ آغاشاہی اہم مذاکرات کے لیے کابل روانہ ہونے والے تھے۔ پاکستان‘ عالم اسلام اور آزاد اقوام کے تعاون اور افغان مجاہدین کی سرفروشی اور بے جگری سے تاریخ میں پہلی بار سویت یونین کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں اور امریکہ نے ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے صرف پانچ ارب ڈالر خرچ کیے۔ فوجوں کی واپسی کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک معاہدہ طے پانا ضروری تھا۔ جنرل ضیائ الحق جنہوں نے جہاد افغانستان میں ایک عظیم تاریخی کردار ادا کیا اور وہ معاہدے سے پہلے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر اصرار کر رہے تھے تاکہ ملک خانہ جنگی سے بچ جائے اور مجاہدین کے گروپس اقتدار میں شامل کر لیے جائیں۔ اس کے برعکس امریکہ فوری معاہدے کے حق میں تھا اور اس غرض کے لیے اس نے وزیراعظم پاکستان جناب محمد خان جونیجو پر بہت دباؤ ڈالا اور صاحبزادہ یعقوب خان وزارت خارجہ سے سبک دوش کر دیے گئے۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود جنیوا معاہدے میں حائل نہ ہو سکے‘ تاہم انہوں نے مئی ۸۸ئ میں وزیراعظم جونیجو کی کابینہ برطرف کر دی اور یہی اقدام ان کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنا۔ امریکہ اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا اور جنرل ضیائ الحق اس کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہو رہے تھے چنانچہ وہ ایک فضائی حادثے میں شہید کر دیے گئے۔ روسی فوجوں کی واپسی سے پہلے اگر ایک وسیع البنیاد حکومت وجود میں آ جاتی‘ امریکہ اس کی پشت پناہی کرتا اور افغانستان کی تعمیروترقی میں اپنا عالمی کردار ادا کرتا‘ تو شرق اوسط کے اس اہم خطے کے حالات یکسر مختلف ہوتے اور وہاں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی صورت نکل آتی‘ مگر ہوا یہ کہ جونہی روسی فوج کا آخری سپاہی دریائے آمو کے اس پار گیا‘ امریکی انتظامیہ نے افغانستان اور پاکستان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور یہ کوشش بھی کی کہ جنگ سے تباہ شدہ ملک میں امن قائم نہ ہونے پائے۔ افغانستان میں پشتونوں کی اکثریت تھی‘ مگر اس کی بیورو کریسی میں تاجک حاوی ہو گئے تھے۔ احمد شاہ مسعود جو ایک بہت بڑے فوجی قائد تھے‘ انہوں نے شمالی اتحاد کے نام سے ایک گروپ قائم کر رکھا تھا جس میں تاجک پیش پیش تھے۔ گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے درمیان نسلی اور نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے جنہیں ختم کرنے کی مختلف اطراف سے کوششیں ہوتی رہیں۔ یہ جہادی کمانڈر کبھی اسلام آباد‘ کبھی پشاور‘ کبھی کابل اور ایک بار خانہ کعبہ میں بھی جمع ہوئے اور آپس میں تمام اختلافات ختم کرنے کا عہد ہوا اور معاہدے تحریر میں لائے گئے‘ مگر کرنل امام جو آئی ایس آئی کی طرف سے افغانستان میں بیس سال سے زائد مقیم رہے اور تمام اہم واقعات کے عینی شاہد ہیں‘ انہوں نے مئی ۲۰۰۹ئ کی ایک شام پائنا راؤنڈ ٹیبل میں انکشاف کیا کہ ’’امریکی ٹاؤٹوں‘‘ کی درپردہ سازشوں سے ہر معاہدہ ناکامی سے دوچار ہوا اور افغانستان خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہا یہاں تک کہ ایک غیر متوقع صورت حال پاکستان اور افغانستان میں نمودار ہوئی جس نے پورا منظرنامہ یکسر تبدیل کر دیا۔
٭٭
یہ عجب اتفاق ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان اور افغانستان میں بیک وقت ایک ہی جیسے دوررس واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ مالاکنڈ میں صوفی محمد نفاذ شریعت محمدی کا مطالبہ لے کر اُٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تحریک میں اس قدر شدت آ گئی کہ شاہراہِ قراقرم پورے ملک سے کاٹ دی گئی اور چھ اضلاع کے اندر ایک شورش بپا ہو گئی۔ اس مطالبے میں چونکہ عوام کی آواز شامل تھی‘ اس لیے پیپلز پارٹی کی حکومت نے نظام عدل ریگولیشن فوری طور پر نافذ کر دیا اور عدالتیں بھی قائم ہو گئیں‘ جس کے بعد نفاذ شریعت محمدی کی تحریک عملی طور پر ختم ہو گئی۔ عین اسی زمانے میں قندھار کے صوبے میں ملا محمد عمر اپنے مدرسے کے دو درجن دینی طالبان کے ہمراہ نمودار ہوئے اور امن کے حق میں ایک عوامی تحریک شروع کی جس میں لوگ جوق درجوق شامل ہوتے گئے‘ اور وہ قلیل عرصے میں ایک طاقت بن گئی۔ اس وقت میجر جنرل ﴿ر﴾ نصیر اللہ بابر پاکستان کے وزیر داخلہ تھے جن کا تعلق صوبہ سرحد سے ہے۔ ان کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے طالبان کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مقصد یہ تھا کہ افغانستان میں جہادی گروپ جس طرح ایک دوسرے سے برسرپکار ہیں اور ایک غیر مستحکم افغانستان پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے‘ وہاں طالبان کے ذریعے امن قائم کیا جائے اور ایک پاکستان دوست حکومت بھی قائم ہو جائے۔ طالبان کے قائد ملا محمد عمر نے پاکستان کے دینی مدرسوں ہی میں تعلیم حاصل کی تھی اور ان کے جید علما سے اچھے روابط تھے۔ اس موقع پر کرنل امام جو افغانستان میں تعینات تھے انہوں نے طالبان کی قیادت کو کابل تک پہنچنے کی راہ دکھائی اور ۱۹۹۶ئ تک وہ افغانستان کے نوے فی صد حصے پر اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
طالبان نے ملا محمد عمر کو اپنا امیر منتخب کیا اور افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مجاہدین کے کمانڈر جو سالہاسال سے ایک خونین کھیل میں مشغول تھے‘ طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی ملک سے باہر جا چکے تھے۔ عوام ان کی خوں آشامیوں سے اس قدر نالاں اور خوفزدہ تھے کہ وہ امن و سلامتی کی تلاش میں طالبان کے پرچم تلے جمع ہو گئے اور ایک گولی چلائے بغیر پورے معاشرے میں امن قائم ہو گیا۔ عوام نے اسلامی ریاست کے امیر کی اپیل پر پوست کی کاشت بند کر دی اور سوسائٹی اسلحے سے پاک ہو گئی۔ ایک جنگجو اور اقتصادی طور پر تباہ حال ملک میں یہ کامیابیاں کسی طور ایک معجزے سے کم نہیں تھیں۔ حکمرانوں نے سادگی اور کفایت شعاری کا ایک ایسا خوبصورت نمونہ پیش کیا کہ رشوت اور بدعنوانی کے آثار خودبخود ختم ہو گئے اور عدل و انصاف کا بول بالا ہونے لگا‘ تاہم یہ طالبان جو ایک خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ تھے‘ ان کا فہم اسلام عام مسلمانوں کے معتدل رویوں اور جدید تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں تھا اور ان کے بعض تصورات اسلام کے وسیع تر تناظر سے ہٹے ہوئے تھے۔ ان کی مذہبی شدت پسندی سے بعض مسائل پیدا ہوئے اور امریکہ سکیورٹی کونسل سے ان کی حکومت کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگوانے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ بتدریج بیرونی دنیا سے کٹتے گئے اور پاکستان کے بعض بااثر طبقوں میں بھی ان کے بارے میں تحفظات اُبھرنے لگے۔ اس پوری صورت حال کو نائن الیون کے سانحے نے یک لخت آتش بداماں کر دیا جس کے پاکستان پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے اور آج ہم انہی اثرات کے بھنور میں غلطاں چلے آ رہے ہیں۔
٭٭
جہاد افغانستان کے دوران اور اس کے مابعد اثرات میں چند باتیں غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ پہلی یہ کہ سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکہ دنیا کی سپرپاور بن گیا ہے اور عالمی سیاست کا توازن بڑی حد تک بگڑ چکا ہے۔ دوسری یہ کہ اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل کی عالمی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی اور مظلوم قوموں کی ان اداروں سے دادرسی‘ انصاف اور تحفظ کی اُمیدیں دم توڑنے لگیں۔ تیسری بات یہ کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کے حق میں جہادی تحریکیں منظم ہوئی ہیں اور ان کے آپس میں گہرے رابطے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین میں طاقت کے وحشیانہ استعمال‘ انسانی حقوق کی بے دریغ پامالی‘ انصاف کی عدم دستیابی سے مایوسی اور مستقبل کی ناامیدی کے سبب بڑی تعداد میں دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں۔ پانچویں بات یہ کہ تیس لاکھ افغان مہاجرین۸۰ئ سے پاکستان میں آباد ہیں اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چھٹی بات یہ کہ جہاد افغانستان کے نتیجے میں ہمارے ہاں اسلحہ بہت آیا ہے اور فوجی ٹریننگ سنٹر قائم ہوئے ہیں۔ ساتویں اہم ترین بات یہ کہ امریکی خواہش کے مطابق پاکستانیوں اور افغانیوں میں جہاد کی روح پھونکنے کے لیے دینی مدارس کے قیام کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی گئی اور آج پاکستان میں بیس ہزار کے لگ بھگ دینی مدرسے اور بیس لاکھ سے زائد مسجدیں آباد ہیں۔ یہ مدارس بالعموم اسلام کی عالمگیر حیثیت کا شعور دینے کے بجائے فقہی مباحث اور قدیم فلسفہ و منطق کی تعلیم دیتے ہیں۔
اس ضمن میں آٹھویں بات یہ کہ جنوری ۷۹ئ میں ایرانی انقلاب کے بعد امریکی اور مغربی مصنفین اور کالم نگاروں نے اسلامی دنیا کو سنّیوں اور شیعوں میں تقسیم کرنے اور سنی مسلم حکمرانوں کے اندر یہ خوف بٹھانے کی مذموم کوشش کی کہ شیعہ ان کے اقتدار پر قابض ہونے والے ہیں۔ پاکستان میں ان فتنہ سامانیوں کا یہ اثر ہوا کہ ’’سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد‘‘ منظم ہو کر دہشت گردی پر اُتر آئیں اور فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی۔ متحدہ علما کونسل نے تمام بڑے مسالک ایک پلیٹ فارم پر جمع کیے اور باہمی رواداری کا مظاہرہ کر کے پنجاب میں تو اس فتنے پر قابو پا لیا جسے جرائم پیشہ عناصر ہوا دے رہے تھے اور انہیں بیرونی امداد بھی مل رہی تھی‘ لیکن کرم ایجنسی اور شمالی علاقہ جات میں نفرت کے شعلے دہکتے رہتے ہیں۔ گہرے اثرات کی حامل ایک اور بات یہ ہے کہ کویت پر عراقی قبضے کے بعد جو خلیجی جنگ لڑی گئی‘ اس میں عرب سرزمین پر امریکی فوجیں اُتر آئیں اور مسلم دنیا کی آزادی اور وسائل کو شدید خطرات لاحق ہو گئے۔ ان خطرات سے چھٹکارا پانے کے لیے اسامہ بن لادن کی طرف سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ ہوا اور یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ہم ان کے خلاف پوری قوت سے مزاحمت کریں گے۔ یہ غالباً ۹۳ئ کا زمانہ تھا جب انہوں نے القاعدہ کی داغ بیل ڈالی اور پورے عالم اسلام کے پُرجوش مجاہدوں اور باصلاحیت نوجوانوں کو امریکی غلبے کے خلاف منظم کیا جن کے مسلم دنیا کے ہر گوشے میں نیو کلیس قائم ہیں۔ آخری قابل ذکر بات یہ کہ جب روسی فوجیں افغانستان سے چلی گئیں‘ تو جو لوگ اپنے ملکوں سے بغاوت کر کے جہاد افغانستان میں حصہ لینے آئے تھے‘ اپنے ملک واپس نہیں جا سکتے تھے جن میں ازبک‘ تاجک‘ چیچن‘ چینی‘ ترکستانی اور عرب شامل تھے۔ انہی سرکردہ اشخاص میں اسامہ بن لادن بھی تھے‘ چنانچہ وہ سعودی عرب واپس جانے کے بجائے پہلے سوڈان گئے اور جب ان کی دواساز فیکٹری پر امریکہ نے میزائل داغے‘ تو وہ افغانستان واپس چلے آئے۔ وہ تو قیادت کے منصب پر فائز تھے‘ مگر دوسرے ہزاروں مجاہدین پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آباد ہو گئے جہاں انہوں نے فوجی تربیت حاصل کی تھی اور بہادر قبائلیوں کے ساتھ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کیا تھا۔ وہ ۸۸ئ کے اوائل سے قبائلی علاقوں میں آباد ہوئے اور ایک پُرامن زندگی بسر کر رہے تھے‘ لیکن نائن الیون کے بعد ایک نیا منظرنامہ اُبھرتا چلا گیا اور یہی مجاہدین اب دہشت گرد قرار پائے ہیں اور ہماری فوج ان کے تعاقب میں ہے۔ امریکہ جو افغانستان میں جنگ ہارتا دکھائی دیتا ہے‘ اس نے پاکستان کی بہترین فوج کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے جس سے باہر آنے کے لیے قوم کو سیاسی بصیرت‘ جرأت اور یکسوئی کا مظاہرہ کرنا اور ڈالروں کی چمک سے اوپر اُٹھنا ہو گا۔
٭٭
ان تاریخی حقیقتوں کی روشنی میں نائن الیون کے واقعات اور ان سے پیدا شدہ اثرات کا آسانی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ جنرل حمید گل جو جہاد افغانستان کا ایک مرکزی کردار تھے‘ ان کی سوچ یہ ہے کہ ’نائن الیون بہانہ‘ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔‘‘ ان کے نزدیک امریکہ شرق اوسط اور وسطی ایشیا کے وسائل پر قابض ہونے کے لیے افغانستان میں مستقل قیام کرنا چاہتا ہے اور پاکستان سے اس کا اسلامی تشخص‘ اس کے جوہری اثاثے چھین لینے اور اس کی فوج کو انتہائی طور پر کمزور کرنے کے خطرناک عزائم رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی سوچ میں کسی قدر مبالغہ پایا جاتا ہو‘ مگر آٹھ سال گزرنے کے بعد حالات کچھ اسی نہج پر آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کم از کم پاکستان کی حد تک ان کے خدشات درست معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے جوہری اثاثوں کے بارے میں امریکی عہدے دار‘ کانگرس کے ارکان اور اخبارات جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کن خطوط پر سوچ رہا ہے۔ اسی طرح اسلام پر چاروں طرف سے جو یلغار جاری ہے اور اسلامی شعائر کی اہمیت کم کرنے اور انہیں زندگی سے خارج کرنے کی جو مہم بڑی ’’ہنرمندی‘‘ سے چلائی جا رہی ہے‘ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ پاک فوج دہشت گردی کے الاؤ میں دھکیل دی گئی ہے۔
تحقیقاتی کمیشن کی روشنی میں نائن الیون کے جو واقعات منظر عام پر آئے ہیں‘ ان میں افغانستان اور اسامہ بن لادن کا براہ راست کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اس حقیقت کے باوجود امریکہ نے افغانستان سے اسامہ بن لادن اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اورانکار کی صورت میں طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دی۔ اس اہم تاریخی موڑ پر پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد جناب مفتی شامزئی کے ہمراہ کابل گئے اور سعودی عرب کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس ترکی الفیصل بھی ادھر آئے تھے۔ ملامحمد عمر نے کہا کہ اسامہ بن لادن ایک پرامن شہری کی طرح زندگی بسر کر رہا ہے اور ہمیں اس کے طرزعمل سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ ہمارا مہمان ہے اور ہم اپنی روایات کے مطابق اسے دشمن کے حوالے نہیں کر سکتے‘ البتہ سعودی عرب یا پاکستان اسے لینے پر آمادہ ہو تو ان کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب اس بارگراں کو اُٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور امریکہ یورپ کی فوجوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ پچیس پچیس ہزار پونڈ وزنی ہزاروں بم گرائے گئے‘ بستیوں کی بستیاں کھنڈر بن گئیں‘ ایک لاکھ سے زائد طالبان ہلاک ہوئے اور آٹھ سال تک فوجی طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود کامیابی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے اور ناکامی کا سارا نزلہ پاکستان پر گرایا جا رہا ہے۔ اب افغانستان اور پاکستان کا جنگی تھیٹر ایک ہو گیا ہے جس کے باعث ڈیورنڈ لائن کی بین الاقوامی حیثیت متاثر ہو رہی ہے۔
٭٭
جنرل پرویز مشرف جو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کا جرم سرزد کرنے پر عالمی برادری میں اچھوت بنے ہوئے تھے‘ انہیں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کی امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے ٹیلی فون پر دعوت اور دھمکی دی گئی‘ تو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستان کو فرنٹ لائن ریاست بنانے کے لیے تیار ہو گئے۔ انہیں اپنے ناجائز اقتدار کا جواز حاصل کرنے کا سنہری موقع ملا تھا۔ ان کے دورِ حکومت میں ایک بات کا سب سے زیادہ خیال رکھا گیا کہ ملکی وقار اور قومی حمیت کی قیمت پر امریکی خدمات کے صلے میں زیادہ سے زیادہ ڈالر حاصل کیے جائیں‘ چنانچہ عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کے بجائے ان کی حکومت القاعدہ سے وابستہ افراد کی تلاش اور انہیں امریکی ایجنسیوں کے حوالے کرنے کا خطرناک کاروبار کرتی رہی اور کروڑوں ڈالر بٹورے گئے جن کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ اسی طرح امریکی حکم پر پاکستانی فوجیں آپریشن کے لیے فاٹا بھیجی گئیں اور اس کام کا معاوضہ حاصل کیا گیا جو پانچ سال میں دس ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا‘ مگر یہ بھاری رقوم فوج تک نہیں پہنچیں اور یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس کس کی جیب میں گئی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے واشنگٹن میں امریکی قیادت سے ایک بار ترنگ میں آکر کہا تھا کہ پاکستان کی فوج آپ کی فوج ہے جس کا عملی ثبوت گزشتہ برسوں میں فراہم کیا جاتا رہا۔ اس تباہ کن پالیسی کے نتیجے میں ہماری فوج پر کرائے کی فوج کا لیبل چسپاں ہونے لگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا پاکستان کو فوری فائدہ یہ پہنچا کہ اس کے پچاس ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول ہوئے اور یوں اقتصادی نشوونما کے لیے بڑی گنجائش پیدا ہوئی۔ اس گنجائش کا ٹھوس فائدہ اٹھانے کے بجائے ایسی معاشی اور مالیاتی پالیسیاں اختیار کی گئیں جن کے سبب امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے اور غربت اور بے روزگاری میں خونخوار اضافہ ہوتا گیا۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے منصوبہ ساز دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں اور احساسِ محرومی کو پروان چڑھا رہے تھے۔ خودکشیوں میں اضافہ ہوا تھا اور علاقائی پس ماندگی بڑھتی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے بارے میں یہ تاثر بھی گہرا ہوا کہ وہ کشمیر کی تحریک آزادی اور کشمیری عوام کی سیاسی حمایت سے دست بردار ہو گئی ہے‘ فوجی قیادت کی سرپرستی میں بڑے طاقت ور مافیا امور مملکت پر اثرانداز ہو رہے ہیں اور ان کی ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت بیرونی ممالک میں بڑے پیمانے پر منتقل ہو رہی ہے۔
اکتوبر ۱۰۰۲ئ کے بعد ہمارے ملک میں عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے گئے ہیں۔ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی آمد کا پاکستان پر اثرانداز ہونا ایک فطری امر تھا‘ کیونکہ ڈیورنڈ لائن کی دونوں طرف ایک ہی قبائل آباد ہیں‘ آج ہمارے ہاں جو شورش برپا ہے‘ اس کا منبع افغانستان ہے اور وزیر داخلہ جناب رحمن ملک نے کھلے بندوں یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہمارے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے اور طالبان جنگجوؤں کو غیرملکی ایجنسیاں وسائل اور ہتھیار فراہم کر رہی ہیں۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کو آغاز ہی میں نائن الیون کے بطن سے جنم لینے والی صورت حال کا گہرائی سے جائزہ لے کر ایک جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے تھی‘ مگر جنرل پرویز مشرف جو اپنے آپ کو ’’عقل کُل‘‘ سمجھتے تھے‘ ان کے عہد میں وقفے وقفے سے پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں اور یہ تاثر عام ہوا کہ حکومت عسکریت پسندوں سے نمٹنے میں سرے سے سنجیدہ نہیں۔ اور اس نظریے کو بھی تقویت ملی کہ ہماری ایجنسیاں اپنے مخصوص مقاصد کے لیے بعض افراد کو آگے لا کر ان کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ سوات‘ دیر اور بونیر کے لوگ اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ مولوی فضل اللہ‘ بیت اللہ محسود‘ باغ مینگل‘ مولوی نذیر‘ گل بہادر اور صوفی محمد کو شتربے مہار بنانے میں ہماری خفیہ ایجنسیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور فوجی قیادت طالبان سے دو دو ہاتھ کرنے سے اس لیے گریز کرتی رہی کہ القاعدہ کے مقابلے میں وہ انہیں اپنا قیمتی سرمایہ تصور کرتی ہے۔ ناقدین اس کا یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ فوج نے مالاکنڈ میں فوجی آپریشن راہ حق ’’نمبر ۱‘‘ راہ حق ’’نمبر ۲‘‘ اور راہ حق ’’نمبر ۳‘‘ شروع کیے‘ مگر ان کے نتیجے میں طالبان کی طاقت میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا گیا اور بالآخر عسکریت پسند لیڈروں کے ساتھ امن معاہدے کرنا پڑے۔ باخبر لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ۲۰۰۴ئ‘ ۲۰۰۶ئ اور ۲۰۰۸ئ میں بیت اللہ محسود کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں اور ان میں فوج کو اس لیے پسپا ہونا پڑا کہ عسکریت پسندوں کے مقابلے میں اس کی نفری کم تھی‘ چنانچہ شکئی معاہدے کی رو سے نقصانات کی تلافی کے طور پر بیت اللہ محسود کو ساڑھے آٹھ کروڑ روپے دیے گئے اور انہیں جنوبی وزیرستان کا بے تاج بادشاہ بنا دیا گیا۔ اب یہ راز بھی فاش ہو گیا ہے کہ ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے ۲۰۰۵ئ میں عبداللہ محسود کو قتل کرنے کے لیے بیت اللہ محسود کی خدمات حاصل کیں۔ عبداللہ محسود تئیس ماہ گوانتا ناموبے جیل میں رہنے کے بعد ۲۰۰۵ئ میں پاکستان آیا تھا اور اس پر دو چینی انجینئروں کے اغوا کا الزام تھا۔ وہ ژوب میں قتل کر دیا گیا۔ دہشت گردی کے تمام واقعات کا جائزہ لینے کے بعد یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خون آشام اور لرزہ خیز واقعات کے بعد تحریک طالبان پاکستان وجود میں آئی اور مختلف گروپ بیت اللہ محسود کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے۔ سوات کے مولوی فضل اللہ نے لال مسجد میں شہید ہونے والے مردوخواتین کا انتقام لینے کا عہد کیا اور بیت اللہ محسود کی قیادت میں کام کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے اس کا تمام تر زور دعوت و تبلیغ پر تھا اور جب اس کی بڑھتی ہوئی طاقت سول انتظامیہ کے سامنے سرنگوں ہو گئی‘ تو وہ اپنے آپ کو اس علاقے کا حکمران سمجھنے لگا۔
٭٭
آپریشن ’’راہ راست‘‘ اور ’’راہ نجات‘‘ کے شروع ہونے سے یقینا یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ فوج اس بار پوری طرح سنجیدہ ہے اس لیے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے۔ دوسری طرف طالبان کا امیج خراب ہوا ہے۔ خاتون کو سرعام کوڑے مارنے کی متنازعہ فلم نے ان کی خونخواری بے نقاب کر دی ہے۔ جناب صوفی محمد کے اس اعلان سے کہ وہ آئین‘ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو شرک اور کفر کی علامت سمجھتے ہیں اور انہیں تسلیم نہیں کرتے باشعور شہریوں میں شدید ردعمل پیدا ہوا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر جو طالبان میں گھس آئے تھے‘ انہوں نے اغوا کی وارداتوں کے بڑے بڑے تاوان وصول کرنا اور لوگوں کو ذبح کرنے کا انسانیت سوز سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ اُن کی طرف سے سوات معاہدے اور نظام عدل کے بعد بونیر اور لوئر دیر میں پیش قدمی اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں غیرمعمولی شدت آ گئی۔ اس موقع پر امریکہ اور مولانا فضل الرحمن کی طرف سے بیک وقت اس خطرے کا اظہار کیا جانے لگا کہ طالبان اسلام آباد پہنچنے والے ہیں۔ اس نازک مرحلے پر سیاسی اور عسکری قیادت نے عوام کی حمایت سے طالبان جنگجوؤں کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس آپریشن کی بیشتر سیاسی جماعتوں اور رائے عامہ کے نمائندوں نے حمایت کی اور ساتھ ہی اسے محدود رکھنے‘ کم وقت میں نتیجہ خیز بنانے اور پوسٹ آپریشن سٹریٹجی تیار کرنے کا بھی مشورہ دیا‘ لیکن دو ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک مینگورہ کے نواحی علاقے بھی غیرمحفوظ ہیں اور بونیر کا ضلعی ہیڈکوارٹر ابھی شدت پسندوں کے دباؤ میں ہے۔ مالاکنڈ کے مختلف علاقوں اور قصبوں میں جھڑپیں جاری ہیں‘ جبکہ فوج کو جنوبی وزیرستان میں بھی آپریشن ’’راہ نجات‘‘ شروع کرنا پڑا ہے اور غالباً بیت اللہ محسود کی درپردہ خواہش کے عین مطابق فوجی محاذ پھیلتا جا رہا ہے جس کے بارے میں دفاعی تجزیہ نگار تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی فوجی طاقت کے استعمال کی نزاکتیں اور پیچیدگیاں بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ ایک یقین افروز اشارہ دے چکے ہیں کہ ہم اپنے مسائل اپنے وسائل اور اپنی عزت نفس کے ساتھ حل کریں گے اور ہمیں غیروں کے مشوروں کی ضرورت نہیں۔
حکومت کو اس پہلو کا جائزہ لینا چاہیے کہ مالاکنڈ میں فوجی کامیابیوں کے باوجود فوجی آپریشن کی مخالفت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ وہ سیاسی اور دینی جماعتیں جو فاٹا اور صوبہ سرحد میں اپنا اثرونفوذ رکھتی ہیں‘ ان کے مرکزی قائدین شدید تحفظات کا اظہار کیوں کر رہے ہیں۔ مالاکنڈ میں کام کو تکمیل تک پہنچائے بغیر جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی جناب آفتاب شیرپاؤ‘ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد بھی کھلے بندوں مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار کو انہیں اعتماد میں لینا اور ان کی سیاسی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں‘ مختلف ریاستی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے مابین بامقصد رابطوں کا فقدان ہے جس کے باعث متضاد بیانات سننے اور الجھے ہوئے اقدامات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ یہ حقیقت سبھی کو معلوم ہے کہ بیت اللہ محسود کے پاس بیس ہزار کے لگ بھگ تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے اور اس کی حمایت فاٹا کی دوسری ایجنسیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ غالباً ان کی سرکوبی کے لیے ہمیں کم از کم تین گنا فورس درکار ہو گی۔ اس کے علاوہ ایک مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک‘ اعلیٰ درجے کا کمیونی کیشن سسٹم اور عام قبائلیوں کی حمایت بے حد ضروری ہے۔ یقینا متعدد قبائل پاک فوج کے خلاف ہرگز لڑنا پسند نہیں کریں گے اور صرف یہ ضمانت چاہیں گے کہ ان کی روایات اور تہذیبی اقدار کے احترام کے ساتھ اور انہیں بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔ ان کے دل اور دماغ جیتنے کے لیے تدابیر پر غوروخوض کے ساتھ ساتھ اس تاثر کو سختی سے زائل کرنے کی فوری ضرورت ہے کہ پاک فوج امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ بے پناہ دشواریوں اور قدم قدم پر حائل رکاوٹوں کے باوجود پاکستان اپنے استحکام کی جنگ جیت لے گا اور قوم کو آخرکار یہ خوش خبری سننے کو ملے گی کہ سیاسی اور فوجی قیادت نے اپنی علاقائی خودمختاری کے تحفظ کا عظیم کارنامہ سرانجام دے دیا ہے‘ اپنی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات پر قابو پا لیا ہے اور ایک ایسے نظام کی داغ بیل ڈال دی ہے جو مراعات یافتہ طبقے کے بجائے عوام کے سماجی اور نظریاتی تحفظ کا ضامن ہو گا۔
٭٭
ہماری ریاست کا پورا ڈھانچہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جو اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور ان کے دستوری حقوق دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ عوام بجلی اور پانی کی قلت سے بلبلا اُٹھے ہیں اور غربت‘ بے روزگاری اور بدامنی کا عفریت زندگی کا سکون نگلتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی ریاست جن بڑے بڑے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے وہ مالاکنڈ اور فاٹا کے واقعات سے کہیں زیادہ ہولناک اور لرزہ خیز ہیں۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی اس نوآبادیاتی اور استحصالی نظام کی پیداوار ہے جو لارڈ میکالے سے لے کر ’’وائسرائے‘‘ ہالبروک تک ہماری قوم پر مسلط چلا آ رہا ہے۔ وہ تمام ادارے جو شہریوں کو سہولتیں فراہم کرتے اور ان کی خدمات بجا لاتے تھے‘ آج بدترین زوال کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کرپشن‘ غفلت اور بدنیتی کے سبب ریلوے کا پورا نظام بیٹھ گیا ہے اور بڑے بڑے کمیشن کھانے کی بُری عادتوں نے واپڈا کو سفید ہاتھی بنا کے رکھ دیا ہے۔ پولیس عوام کا اعتماد کھو بیٹھی ہے اور مقامی حکومتوں کے غیرمتوازن اور نیم پختہ نظام نے سول انتظامیہ کو مفلوج کر دیا ہے۔ اپنی قومی خودمختاری کا سودا کرنے کے بعد ہم امریکہ کی طفیلی ریاست بن گئے ہیں۔ ہماری حکومتوں نے جن پر بے رحم اور سنگ دل مافیاؤں کا قبضہ ہے‘ انسانی ترقی کے سلسلے میں ایک مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیا ہے اور طبقاتی نفرت اور کشمکش نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ غریب لوگ اپنے آئینی حقوق‘ سماجی‘ معاشرتی انصاف اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر بغاوت پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ کچھ یہی کیفیت اُن پس ماندہ علاقوں اور صوبوں کی ہے جو مرکزی حکومت کی مسلسل زیادتیوں اور چیرہ دستیوں کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں اور ان میں علحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ ٹھگ اور لچے لفنگے قدم قدر پر قانون کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں جو ایوانوں اور اہم اداروں کے اندر بھیس بدل کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے جرنیلوں نے تو آئین کی رٹ اپنے بوٹوں تلے بارہا پامال کی ہے اور ہماری فرعون صفت ایگزیکٹو جس کی نگاہ میں سولہ سترہ کروڑ عوام رعایا کی حیثیت رکھتے ہیں‘ اس نے مسلمہ ضابطوں اور قوانین کی رٹ کو چیلنج کرتے رہنا اپنا طرۂ امتیاز بنا لیا ہے۔
آج یہ سوال جگہ جگہ پوچھا جا رہا ہے کہ طالبان جہاں بھی جاتے ہیں‘ عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کیوں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے فاٹا اور دوسرے علاقوں میں سروے کیے گئے ہیں جن سے چند حیران کن حقائق سامنے آئے ہیں۔ پہلی حقیقت یہ کہ طالبان کی قیادت کا تعلق غریب خاندانوں اور پس ماندہ علاقوں سے ہے اور بیشتر کمانڈروں کی عمریں پینتیس اور چالیس کے درمیان ہیں۔ دوسری یہ کہ بیشتر قائدین معروف دینی مدرسوں کے سند یافتہ ہیں‘ نہ انہیں جدید تقاضوں کا سرے سے کوئی ادراک ہے‘ تیسری حقیقت یہ کہ ان کا افغانستان کے طالبان سے کوئی تحریکی تعلق نہیں۔ چوتھی یہ کہ ان میں جرائم پیشہ عناصر اور غیرملکی باشندے بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ عمومی تاثر بھی سامنے آیا ہے کہ عالم اسلام کے وہ بااثرحلقے جو امریکی بالادستی کے خلاف ہیں‘ ان کے خیال میں طالبان امریکی جارحیت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور یہی تاثر پاکستان کے مختلف حصوں میں بھی پایا جاتا ہے جس کے باعث نوجوان ان کے حلقۂ اثر میں داخل ہوتے جا رہے ہیں اور وہ آج بھی انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ طالبان کا سفاک چہرہ اگرچہ ٹی وی چینلز کے ذریعے آئے دن سامنے آ رہا ہے جو اسلام اور پاکستان کی رسوائی کا باعث بنا ہوا ہے‘ مگر ان کا یہ امیج ابھی تک ختم نہیں کیا جا سکا کہ وہ بے حیائی‘ امریکی بالادستی اور مراعات یافتہ طبقات کی اجارہ داری کے خلاف ہیں اور شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں سے مَلکوں‘ خوانین اور پولیٹیکل ایجنٹوں کا خاتمہ کر دیا‘ مخرب اخلاق سی ڈیز کے خلاف مہم چلائی جو نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں میں بے حیائی پھیلانے کا باعث بنی ہوئی تھیں‘ نظام عدل کے قیام کو اپنی تحریک کا اولین مقصد قرار دیا اور عوام کو یقین دلایا کہ ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں گے۔ ایک سے زیادہ این جی اوز نے فاٹا میں سروے کیا ہے اور لوگوں سے پوچھا ہے کہ آپ کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے‘ ۷۸فی صد نے جواب دیا کہ ہمیں انصاف چاہیے‘ ۵۸فی صد نے کہا ہمیں اسکول اور ہسپتال چاہئیں۔ پاکستان میں جو نظام حکومت چل رہا ہے‘ اس نے عام شہریوں کو اپنی ریاست کی بدترین کارکردگی سے مایوس کر دیا ہے اور وہ طالبان سے بہت ساری اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہماری فوج طالبان کا کنٹرول اور کمانڈ سسٹم ختم کرنے اور قیادت کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو جائے‘ مگر ایک ظالم نظام کے خلاف عامتہ الناس میں جو باغیانہ رجحانات پھیلتے جا رہے ہیں‘ وہ تو قابو میں نہیں آئیں گے اور بغاوت کی آگ تیز ہوتی جائے گی جو منطقی انجام تک پہنچ کے دم لے گی۔ تاہم ایک پُرامن انقلاب کے ذریعے نفرت کے شعلے بجھائے جا سکتے ہیں۔ اس تبدیلی کا آغاز اوپر سے ہونا چاہیے اور اشرافیہ جس میں سیاسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ شامل ہے اُسے اپنی مراعات سے فوری طور پر دستبردار ہو کر قومی وسائل کا رُخ عوام کی طرف موڑ دینا ہوگا۔ سیاسی کرپشن‘ بھاری کمیشن اور عوام کے استحصال پر مبنی طبقاتی نظام زمین بوس ہو کر رہے گا اور آزاد عدلیہ‘ آزاد میڈیا اور آزاد پارلیمان کے ذریعے سماجی انصاف قائم ہو گا اور قانون کی رٹ ان تمام بدکرداروں اور دولت کے پجاریوں کے خلاف جاری ہو گی جنہوں نے اپنے پیٹ میں کرپشن کی آگ بھری ہوئی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم کسی کو قوم کا پیسہ ڈکارنے نہیں دیں گے اور یہ اعلان بھی ہو چکا ہے کہ نظام عدل پورے ملک میں قائم ہو کے رہے گا اور آخرکار عوام راج کریں گے‘ قوم کو خوشخبری ہو کہ انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے اور فوج عوام کے ساتھ ہو گی

No comments:

Post a Comment