« »

Saturday 8 August 2009

Jewish Activities in Karachi

کراچی میں یہودیوں کی سرگرمیاں؟چھاپیے

منگل, 21 جولائی 2009 21:09
”یروشلم پوسٹ“ اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار ہے جو دنیا کی 15 مختلف زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ یہ اخبار اتوار سے لے کر جمعہ تک روزانہ شائع ہوتا ہے .... جبکہ ہفتے کا دن چونکہ مذہبی طور پر چھٹی کا دن ہے، اسی لیے اس دن اسرائیل میں کوئی اخبار نہیں چھپتا۔ اس اخبار کی پہلی اشاعت یکم دسمبر 1932ءکے دن ہوئی۔ امریکا کے دوسرے بڑے اخبار ”وال اسٹریٹ جنرل“ کے ایڈیٹر ”ڈیوڈ ہورویٹز“ پہلے یروشلم پوسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ 27 فروری 2009ءکو یروشلم پوسٹ نے اپنے پہلے صفحے پرایک خبر کو نمایاں سرخی کے طور پر پیش کیا۔ ”تعجب! یہودی ابھی تک پاکستان میں“ اخبار نے یہ خبر کراچی سے بھیجی گئی ایک ای میل سے لی تھی۔ یہ میل کراچی میں رہنے والے ایک یہودی ڈاکٹر اسحاق موسیٰ اخیری نے بھیجی تھی۔ اسحاق نے اپنا تعلق یہود کے قبیلہ ”سپہردی“ (Sephardi) سے بتایا۔ سپہردی یہودیوں کا اصل تعلق شمال مغربی یورپ میں ”ایبریا“ نامی علاقے سے تھا جو آج کل اسپین اور پرتگال کے سرحد کے کنارے پر واقع ہے۔ ڈاکٹر اسحاق نے بتایا کہ ایک دن پہلے اس نے اپنے گھر پر ”بار میٹزواہ“ (Bar Mitzvah) کی تقریب ہوئی تھی جس میں اس کے 13 سالہ بیٹے نے تورات پڑھ کر مذہب سے وفاداری کا وعدہ کیا۔ اس نے مزید بتایا کہ میں اور میرا خاندان کراچی میں بہت خوش ہے اور ہم یہاں بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں کے لوگ سوائے چند ایک کے بہت اچھے ہیں۔ ہم اور ہماری کمیونٹی گھر پر ہی عبادت کرتے ہیں اور کسی تہوار پر کسی ایک یہودی کے گھر اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ میرے تعلق کے یہاں دس سے زائد یہودی خاندان آباد ہیں جو کراچی کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں۔

اسحاق نے اسرائیل جاکر اپنے مذہبی مقامات دیکھنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا اور کہا :” ہم اپنی چھوٹی سی دنیا کو ہی فوقیت دیتے ہیں اور اجنبیت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارا سیاس استعمال کرے۔ ہم کراچی میں دو سو سال سے آباد ہیں اور کبھی اسے نہیں چھوڑیںگے۔

ڈاکٹر اسحاق اخیری کی یہ میل پڑھ کر مجھے بھی حیرت ہوئی اور جب میں نے کراچی میں یہودی کمیونٹی کی تاریخ کا مطالعہ شروع کیا تو بہت حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔ سن 1881ءمیں صوبہ سندھ میں صرف 153 یہودی آباد تھے۔ 1919ءمیں یہ تعداد بڑھ کر 650 تک پہنچ گئی۔ 1947ءمیں تقسیم سے پہلے صرف کراچی میں 25 سو سے زائد یہودی خاندان آباد تھے ۔جن میں سے اکثر کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا ....جو بھارتی صوبہ مہاراشٹر سے نقل مکانی کرکے کراچی آئے تھے۔ ان میں سے اکثر تاجر، شاعر، فلاسفر اور سول سرونٹ تھے جبکہ کچھ یہودیوں کا تعلق بغداد سے بھی تھا۔ دستیاب ریکارڈ اور مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق یہ خاندان مراچی زبان بولتے تھے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق اسرائیل کے علاقے بین (Bene) سے تھا۔ 1839ءمیں انہوں نے اپنا مذہبی مرکز ”میگن شیلوم“ تعمیر کیا جو 1980ءتک کراچی کے علاقے ”رنچھوڑلائن“ میں قائم رہا۔ 1903ءمیں ”یہودی نوجوان“ کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا ۔جس کا بظاہر مقصد کھیلوں کے علاوہ یہودیوں کی دیگر سرگرمیوں کو فروغ دینا تھا۔ 1918ءمیں بنی اسرائیل ریلیف فنڈ اور یہودی اسنڈیکیٹ (Karachi Jewish Syndicate) کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد غریب یہودیوں کو انتہائی کم کرائے پر گھر فراہم کرنا تھا۔ یہودیوں کے اس مرکز کی خدمات سے مستفید ہونے والے دو خاندانوں کا تعلق پشاور سے بھی بتایا جاتا ہے۔ کراچی میں یہودیوں کا عمل دخل اس قدر بڑھ گیا تھا کہ 1936ءمیں ان کا ایک لیڈر جس کا نام ابراہیم ریوبن بتایا جاتا ہے، کراچی کارپوریشن کا کونسلر بھی منتخب ہوگیا تھا۔

تقسیم ہند کے بعد 500 کے قریب یہودی خاندان ہندوستان نقل مکانی کرگئے۔ لیکن دو ہزار کے قریب نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ سال 1948ءمیں جب اسرائیل کا عمل میں آیا تو کراچی میں موجود یہودیوں کو مسلمانوں میں پائے جانے والے غم وغصے اور ردعمل کو سہنا پڑا اور کراچی کے باسیوں میں پائی جانے والی مذہبی حمیت کے باعث ان یہودی خاندانوں کا مرکز کراچی میں رہنا محال ہوگیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں یہودیوں کا عمل دخل کم ہونا شروع ہوگیاتھا اور جلتی پر تیل کا کام 1948ئ، 1956ءاور 1967ءکی عرب اسرائیل جنگوں نے کیا۔ ایوب خان کے دور میں بہت سے یہودی خاندانوں نے پاکستان کو چھوڑ دیا اور اسرائیل چلے گئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کی ایک بڑی اکثریت نے ”رملہ“ میں رہائش اختیار کی ہے اور وہاں اپنا مذہبی مرکز ”میگن شیلوم“ (Magen Shalom) کے نام سے تعمیر کیا جس کو باقاعدہ طور پر کراچی کی یاد سے منسوب کیا گیا۔ آج کراچی میں اس جگہ پر ایک تجارتی مرکز قائم ہے۔ یہودی دنیا کی وہ واحد ”غیرت مند“ قوم ہے جو نقل مکانی سے پہلے اپنی ہر چیز کی قیمت وصول کر لینا چاہتی ہے یہاں تک کہ اپنی عبادت گاہیں اور مقدس مذہبی مقامات کو بھی فروخت کردیتی ہے۔

اسرائیل کے قیام کے بعد دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں بسانے کا انتظام کیا گیا اور دنیا بھر میں موجود یہودیوں نے وہاں کا رخ کیا، لیکن اس کے باوجود یہودیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد دیگر اسلامی ممالک میں آباد ہے۔ اسلامی ممالک میں ان کی تعداد کچھ اس طرح ہے۔ مراکش میں ساٹھ ہزار، ایران میں 25 ہزار، ترکی میں سترہ ہزار چار سو پندرہ، عراق میں ایک سو، شام میں تیس، افغانستان میں 4، تنزانیہ میں پندرہ سو، لبنان میں 40 ،مصر میں 100 جبکہ پاکستان میں دو سو کے قریب ہے۔ یہ اعداد یہودیوں کے سنسر بیورو سے حاصل کی گئی ہیں ۔جبکہ عین ممکن ہے کہ فراہم کردہ معلومات سے زائد تعداد میںیہودی ان ممالک میں مقیم ہوں۔ پاکستان میں ان کی تعداد میں کچھ حد تک اضافہ ہوا ہے اور ان کی یہ آمد 2005ءمیں آنے والے زلزلے کے بعد ہوئی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے امریکی یہودی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے زلزلے میں ان کی مدد اور تعاون پر شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ یہ یہودی مختلف این جی اورز کے ہمراہ پاکستان آ ئے اور پھر یہیں مقیم ہوگئے۔ آج پاکستان میں سب سے زیادہ یہودی کراچی شہر میں آباد ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت ساحل سمندر کے پاس رہائش پذیر ہیں، جو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم اور یہودی تحریک کے سرخیل ڈیوڈ بن گوریان کی نصیحت اور مشورے پر عمل پیرا ہے۔ اس نے 1967ءمیں کہا تھا: ”ہمیں ہمیشہ بھارت کو اپنا دوست رکھنا ہوگا کیوں کہ پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے بھارت ہمیں ایک مرکز کا کام دے گا۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ بھارت میں یہودیوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہو اور ان کا پاکستان کے ساتھ رابطہ نہ ٹوٹے۔ اس کے لیے انہوں نے پاکستان سے بھارت جانے والے یہودیوں کو بھارت میں بسانا شروع کردیا اور اس مقصد کے لیے کراچی کا ساحل استعمال کیا گیا۔ یہ روٹ ان کے لیے گلف ریاستوں اور ایران تک رسائی کے علاوہ بھارت پہنچنے کا راستہ تھا۔

یہودیوں کے اس خفیہ راستے کو 2000ءمیں ایران نے دریافت کرلیا اور اس پر مکمل پہرہ بٹھا دیا۔ جس کے نتیجے میں وقتی طور پر ان کا یہ سمندری راستہ تو بند ہوگیا مگر بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی سرد مہری کا شکار نہ ہوئے۔ آج ممبئی حملوں کو کئی مہینے گزر چکے ہیں مگر ساحل سمندر، بحیرہ عرب کے علاوہ ”سمندری روٹ“ کی بات ختم ہونے کو نہیں آرہی۔ مغربی میڈیا کی تان بار بار سمندری روٹ پر جا کر ٹوٹی ہے۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل جو بھارت کا قدرتی حلیف بن چکا ہے۔ اس وقت کوئی اور خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ آج کراچی میں موجود زیادہ تر یہودی اپنے آپ کو پارسی ثابت کرتے ہیں تاکہ یہودیوں کی سازشوں کے خلاف مسلمانوں میں پائے جانے والے ردعمل سے بچ سکیں۔ زیادہ تر پارسی پراپرٹی اور بلڈرز ہیں۔ میوہ شاہ قبرستان (کراچی) میں موجود یہودی لیڈر ”سولیمن ڈیوڈ“ کی قبر پر ویرانی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شاید اب یہودی اس شہر سے جاچکے ہیں ....لیکن دوسری طرف جب 82سالہ بوڑھی یہودی خاتون رچل جوزف کو سندھ ہائی کورٹ کی سیڑھیوں پر چلتے دیکھا جائے تو 1980ءمیں بیچے گئے ”میگنی شیلوم“ کو دوبارہ آباد کرانا چاہتی ہے تو اس شہر میں یہودیوں کا عمل دخل اور وجود پھر سے جنم لیتا محسوس ہوتا ہے۔ اسرائیل جیسا ملک ہونے کے باوجود جو بنا ہی ان یہودیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھا، اسے چھوڑ کر اپنے نظریاتی حریف پاکستان کے فنانشل کراچی میں رہنا اور اسی شہر میں آئے دن حالات کا بگڑنا، لسانی فسادات کی آڑ میں ان دیکھی قوتوں کا فائدہ اٹھا کر ملک کو کمزور کرنا، ان تمام باتوں کے تانے بانے کہیں نہ کہیں ضرور ملتے ہیں اور یہی کراچی کو درپیش اصل خطرہ ہے۔

No comments:

Post a Comment