« »

Saturday, 8 August 2009

Mian Tufail Mohammad

بعض لوگوں کی زندگی کے اسرار ان کی موت کے بعد کھلتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی رکن اور سابق امیر مولانا طفیل محمد کے انتقال پر ملال کے بعد اخبارات میں ان کے پرستاروں نے بلکہ ان کے مخالفوں نے بھی جو مضامین لکھے ہیں اس سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ ہمارا ملک بلکہ امت مسلم نابغۂ روزگار عالم دین اور پاکباز سیاستدان سے محروم ہوگئی۔

لیکن بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی۔ ایک مضمون نگار نے ان کے سیدھے جنت جانے کی بشارت دی جہاں حضرت مولانا مودودی ان کا استقبال کریں گے، ایک نے فرمایا کہ وہ عہد حاضر کے ولی تھے۔ ان کے نظریاتی مخالفین نے انکی سادگی کی تعریف میں پل باندھے اور انکی عبادات کے خشوع و خضوع کا ذکر کیا۔

میں انتظار کرتا رہا کہ شاید کوئی حلوے کا ذکر بھی کر دے۔ ان کی جنرل ضیاء سے قربت اور اس روحانی ماموں بھانجے کی اس جوڑی نے اس ملک کو جس رستے پر ڈالا اس کی بات بھی نکل آئے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیوں کہ آج کل ہمارے اکثر تجزیہ نگار، کالم کار کسی منبر پر بیٹھ کر لکھتے ہیں اگر یقین نہ آئے تو کسی اردو اخبار کا ادارتی صفحہ اٹھا کر دیکھ لیجیے اکثر مضامین کا آغاز قرآنی آیت سے ہوتا اور انجام کسی دعا سے یا اکثر بددعا سے۔ ایسے آسمانی دلائل کے سامنے تاریخ، حقائق یا تجزیہ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

دس سال پہلے میری مرحوم مولانا سے ایک مختصر ملاقات منصورہ میں انکی رہائش گاہ پر ہوئی تھی۔ پہلی بات جو مجھے حیران کن لگی وہ یہ کہ منصورہ کے اندر کا ماحول بالکل وہی تھا جو فوجی چھاؤنیوں میں ہوتا ہے۔ ہر چیز انتہائی منظم اور بالترتیب۔ صرف سڑکوں پر مارچ کرتے رنگروٹوں کی کمی تھی۔

یونیورسٹیوں میں مخالفین کی ٹانگیں توڑنے سے لے کر میڈیا کے نیوز روموں کو ہائی جیک کرنے تک، جماعت نے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا لیکن یہ قوم ہے کہ اب بھی انہیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ووٹ دینے کے لیے نکلتی ہے تو پھر کسی پرانے پاپی کو آزمانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جماعت اسلامی کو دو دفعہ اقتدار میں حصہ ملا دونوں دفعہ فوجی آمروں کے دور میں۔

مولانا مرحوم نے انٹرویو کافی بیزاری سے دیا۔ مسکرانا ان کے نزدیک گناہ نہیں تو بدعت ضرور تھی۔ لیکن انٹرویو کے دوران ایک بار ان سے یہ ’بدعت‘ ضرور سرزد ہوئی۔ میں نے جنرل ضیاء کے دور حکومت اور بھٹو کی پھانسی کے بارے میں ایک سوال کیا۔ فرمایا کہ اس دن تو لوگوں نے حلوے کی دیگیں پکائی تھیں اور بانٹی تھیں۔ ان کے ہونٹوں پر ایک میٹھی سی مسکراہٹ آئی جیسے انہیں حلوے کی شیرینی اب تک یاد ہو۔

مولانا طفیل محمد کو جماعت اسلامی کا مستقل جنرل سیکرٹری مقرر کرتے وقت حضرت مودودی نے مولانا سے پوچھا تھا کہ کیا میں اپنی تقریر میں جماعت اسلامی کے بارے میں یہ کہہ دوں کہ یہ اب لوہے کا چنا ثابت ہوگی؟ مولانا نے ایک توقف کے بعد فرمایا کہہ دیں اور جماعت اسلامی واقعی لوہے کا چنا ثابت ہوئی۔

ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ محاوروں اور ضرب المثل میں کبھی کبھی صدیوں کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے تو کبھی کبھی صدیوں کی جہالت۔

لوہے کے چنوں کا بھی کچھ ایسا ہی حساب ہے۔ اس چنے سے نہ تو غریب کا پیٹ بھرتا ہے نہ ہی اس کا لوہا کسی کاریگر کے کام آتا ہے۔ یہ صرف اور صرف دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لیے ہے اور جماعت اسلامی نے پہلے جنرل ضیاء کے ساتھ مل کر اور اس کے بعد مشرف کی حمایت کر کے بار بار اپنے دشمنوں کے چھکے چھڑائے ہیں۔

مولانا طفیل اور انکے مرشد مودودی نے لوہے کے چنوں کی جو فصل بوئی اور جس کی آبیاری کبھی امریکی ڈالروں سے کی تو کبھی سعودی ریالوں سے، وہ فصل اب پک کر تیار ہے اور اٹھارہ کروڑ کی بھوکی عوام اس کو دیکھ دیکھ پریشان ہے کہ یا اللہ اس کا کریں کیا۔ حلوہ بھرے پیٹوں پر ہاتھ پھیر کر جواب دیا جاتا ہے کہ ہم دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیں گے۔

یونیورسٹیوں میں مخالفین کی ٹانگیں توڑنے سے لے کر میڈیا کے نیوز روموں کو ہائی جیک کرنے تک، جماعت نے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا لیکن یہ قوم ہے کہ اب بھی انہیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ووٹ دینے کے لیے نکلتی ہے تو پھر کسی پرانے پاپی کو آزمانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جماعت اسلامی کو دو دفعہ اقتدار میں حصہ ملا دونوں دفعہ فوجی آمروں کے دور میں۔

اب جماعت اسلامی ہوس ناک نظروں سے طالبان اور انکے حواریوں کو دیکھتی ہے، مولانا صوفی محمد کو ان کا اصلی مشن یاد کرواتی ہے۔ پاک فوج کو جہاد کے اصل معنی سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اے کاش، اے کاش۔۔۔۔

مولانا طفیل اور انکے مرشد مودودی نے لوہے کے چنوں کی جو فصل بوئی اور جس کی آبیاری کبھی امریکی ڈالروں سے کی تو کبھی سعودی ریالوں سے، وہ فصل اب پک کر تیار ہے اور اٹھارہ کروڑ کی بھوکی عوام اس کو دیکھ دیکھ پریشان ہے کہ یا اللہ اس کا کریں کیا۔ حلوہ بھرے پیٹوں پر ہاتھ پھیر کر جواب دیا جاتا ہے کہ ہم دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیں گے۔

مولانا طفیل محمد مرحوم سے کسی نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا انہیں مولانا مودودی کے افکار یا شخصیت سے کبھی اختلاف ہوا انہوں نے کہا ہرگز نہیں۔ بس ان کی دو باتیں پسند نہیں تھیں۔ ایک تو نہاری کھاتے اور دوسرا پان۔۔

No comments:

Post a Comment